مصنوعی مٹھاس

پشاور کے نواحی دیہی علاقوں میں کیمیائی مادوں اور چینی کی مدد سے گڑ تیار کرنے کا عملی مظاہرہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح زنگ آلود اور گندے برتنوں کا استعمال کرتے ہوئے پانی کو اُبالا جاتا ہے اور پھر اِس میں مختلف کیمیائی مادے بشمول چینی ڈال کر اِس حد تک گاڑھا کر دیا جاتا ہے کہ اُس محلول سے گڑ کی شکل میں باآسانی ڈلیاں بنائی جا سکیں۔ ذہن نشین رہے کہ چینی بھی کیمیائی مادوں اور کیمیائی عمل ہی کے ذریعے تیار ہوتی ہے‘ جس کی بظاہر چمکیلی سفید رنگت کا راز کیمیائی مادوں کے ذریعے دھلائی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین چینی کو ”سفید زہر‘ ‘قرار دیتے ہوئے چینی کے کم سے کم استعمال یا اِس کے متبادل کے طور پر گڑ کا استعمال تجویز کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں کی اکثریت چینی کی بجائے گڑ کا استعمال کرتی ہے بالخصوص اُن دیہی علاقوں میں گڑ کا استعمال زیادہ دیکھنے میں آتا ہے جہاں گنے کی کاشت ہوتی ہے اور پشاور کے نواحی علاقوں سے لیکر مختلف اضلاع بشمول چارسدہ‘ مردان‘ صوابی اور نوشہرہ کی پٹی گنے کی کاشتکاری کے لئے مشہور ہیں اور دنیا کے بہترین (رس اور مٹھاس کی مقدار کے لحاظ سے) گنے کی فصل اِن علاقوں سے حاصل ہوتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ جنس (گڑ) جو کہ مذکورہ علاقوں میں سب سے زیادہ خالص حالت اور کم قیمت میں ملنی چاہئے‘ ناپید ہے۔ ہم انسانوں کو اپنے رویوں پر نظر کرنی چاہئے کہ کس طرح خاندانی اور سماجی تعلقات سے لیکر اجناس تک کچھ بھی خالص نہیں رہا اور ہر مٹھاس یا تو مصنوعی ہے یا اُس کا حقیقی مٹھاس ہونا مشکوک ہے!گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے اور ہمارے ہاں ہر سال اوسطاً 1 لاکھ ہیکٹرز رقبے پر گنا کاشت ہوتا ہے۔ گنے کی یہ کاشت اور پیداوار قومی ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے تمام گنا شوگر ملوں کو فروخت نہیں ہوتا بلکہ گنے کی فصل کا قریب ایک تہائی حصہ گڑ بنانے کے کام آتا ہے اور سالانہ 15 سے 20 لاکھ ٹن گڑ تیار ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایک ٹن میں ایک ہزار کلوگرام ہوتے ہیں۔ جس طرح گنے کی پیداوار پاکستان کی قومی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے بالکل اِسی طرح چینی کی پیداوار بھی پاکستان کی قومی ضرورت سے زیادہ رہتی ہے لیکن گڑ کی پیداوار قومی ضرورت سے زیادہ نہیں جو سالانہ 35 لاکھ ٹن ہے اور اِسے برآمد بھی کیا جاتا ہے تو طلب و رسد کا فرق ختم کرنے کے لئے کیمیائی مادوں سے گڑ تیار ہوتا ہے۔ اگر حکومت چینی کی طرح گڑ کی پیداوار کو بھی صنعتی پیمانے پر کرنے کے لئے کاشتکاروں کی مدد کرے جس طرح شوگر مل مالکان کی بینکوں کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے تکنیکی مدد کی جاتی ہے تو پاکستان گڑ (جسے عالمی مارکیٹ میں ’براو¿ن شوگر‘ بھی کہا جاتا ہے) کی برآمد کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کما سکتا ہے لیکن اِس کے لئے زمینی حقائق میں تبدیلی لانا ہوگی۔ زراعت کا شعبہ بالعموم اور کاشتکار بالخصوص توجہ چاہتے ہیں اور اِس بات کا اعتراف اگرچہ حکومتی دستاویزات میں تحریر ملتا ہے لیکن عملاً زراعت منافع بخش صنعت نہیں رہی! گنے کی پیداوار اور اِس سے بننے والی مصنوعات کی بات کی جائے تو گڑ کی طلب و مانگ سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ فائدہ جو جعل ساز اُٹھا رہے ہیں حکومت اور کاشتکار کا نصیب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں گڑ بنانے کا آغاز ہر سال ماہ اکتوبر (رواں مہینے کے آغاز) سے اگلے برس مارچ کے وسط یا آخر (کم سے کم چھ ماہ) جاری رہتا ہے لیکن گڑ کی تیاری کے ابتدائی اور آخری مہینوں کے دوران تیار ہونے والا گڑ معیار میں زیادہ اچھا نہیں ہوتا بلکہ درمیانی عرصے یعنی دسمبر جنوری (دو سے ڈھائی ماہ) تیار ہونے والا گڑ مٹھاس اور ذائقے میں لاجواب ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں تحقیق کی ضرورت ہے اور اگر کسی یونیورسٹی کے طلبہ کو ذمہ داری سونپی جائے تو وہ ضرور کم توانائی اور کم لاگت میں زیادہ بڑے پیمانے اور بہترین معیار کے گڑ کی پیداوار حاصل کرنے کا جدید طریقہ دریافت کر سکتے ہیں۔ بہرحال فی الوقت گڑ کی طلب زیادہ ہے اور چونکہ یہ اکثر اوقات بمشکل ملتا ہے اِس لئے معیار پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا اور دوسرا شہری علاقوں میں رہنے والوں کو اصلی اور نقلی گڑ کی پہچان بھی نہیں ہوتی اُور وہ چینی کی نسبت مہنگا گڑ اِس لئے بھی اطمینان سے خرید رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیمیائی مادوں سے پاک ہے اُور بھلے ہی چینی کے مقابلے کچھ مہنگا ہو لیکن کم سے کم چینی کی طرح نقصان دہ تو نہیں ہوتا صارفین لاعلمی میں مضرصحت گڑ استعمال کر رہے ہیں تو اِس میں اِن صارفین کا قصور نہیں! آخر کیا وجہ ہے کہ عوام کو ملاوٹ کرنے والوں‘ گراں فروشوں اُور جعل سازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے؟