اُنیس اکتوبر صبح سات بج کر چھ منٹ پر مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ سے خبر دی کہ ”کراچی میں پولیس اُن کے ہوٹل کمرے کا دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا۔“ مریم نواز کے ٹوئیٹر اکاونٹ سے جاری ہونے والا یہ ایک جملہ حالیہ دنوں میں اُن کی جانب سے مختصر ترین پیغام ہے‘ جس میں کسی بھی قسم کا تبصرہ شامل نہیں اور یہ قیاس آرائیاں گزشتہ شام (اٹھارہ اکتوبر) سے زیرگردش تھیں کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو مزار قائد پر ”ووٹ کو عزت دو“ کے سیاسی نعرے لگانے کی وجہ گرفتار کیا جائے گا لیکن پولیس نے اپنی حد سے تجاوز نہیں کیا اور اگر ایسا ہوتا تو مریم نواز کو ٹوئیٹر اکاو¿نٹ سے خبر نشر کرنے کی مہلت یا اجازت تک نہ ملتی۔ بانی پاکستان کے مزار کا تقدس پائمال کرنے کی مذکورہ انوکھی مثال کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین بڑی تعداد میں کارکنوں کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری دیتے وقت نہ تو مزار کے تقدس اور نہ ہی فاتحہ خوانی کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں نواز لیگ کے کارکن وزیراعظم عمران خان کی وہ ویڈیو شیئر (وائرل) کر رہے ہیں‘ جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے ہمراہ قائد اعظم کی آخری آرام گاہ کے سامنے کھڑے شورشرابا کر رہے ہیں لیکن جس ایک بات پر غور نہیں ہو رہا وہ یہ ہے کہ عمران خان کے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہیں اور وہ قائد اعظم کی قبر کے اوپر نہیں کھڑے بلکہ آہنی جنگلے کے باہر کھڑے ہیں جبکہ کیپٹن صفدر نہ صرف مزار قائد پر لگے 2 حفاظتی جنگلوں کو عبور کر کے مزار کی بنیاد پر کھڑے تھے ‘یہ مناظر اگرچہ مسلم لیگ نواز کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس سے ہٹا دیئے گئے ہیں لیکن کئی دیگر ویب سائٹس پر موجود ہیں۔کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے علاوہ ’مادر ملت زندہ باد‘ اور ’ایوبی مارشل لا مردہ باد‘ جیسے نعرے بھی لگائے۔ اس اقدام پر نہ صرف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہوا‘ جس کے تحت پیر کی علی الصبح اُنہیں ہوٹل کے اُس کمرے سے گرفتار کر لیا گیا جہاں وہ مریم نواز کے ہمراہ ٹھہرے ہوئے تھے اور نواز لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم یہ سوال اُٹھا رہی ہے کہ ”کیا مزار قائد کے احاطے میں نعرے بازی کرنا قابل گرفت جرم ہے؟ ”قائد اعظم مزار پروٹیکشن اینڈ میٹینینس آرڈیننس 1971ئ“ کے تحت بانی پاکستان ’محمد علی جناحؒ‘ کا مزار قومی ورثہ ہے اور اِس کو نقصان پہنچانے اور یہاں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی منعقد کرنا قانوناً جرم ہے اور اِس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 3 سال قید بھی ہو سکتی ہے! مزار قائد سے متعلق آرڈیننس کے مطابق ”کراچی کے باغ جناح اور اِس کے احاطے میں واقع مزار کے اندر اور بیرونی دیوار کے دس فٹ کی حدود میں کسی بھی نوعیت کی میٹنگ‘ سیاسی جلسہ‘ جلوسوں اور مظاہروں کی اجازت نہیں ہے قانون کے مطابق مذکورہ جرائم کے مرتکب شخص کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔اگرچہ اس واقعہ کے بعد گرفتار کیپٹن(ر) صفدر کی ضمانت پر رہائی ہو چکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی سرگرمیاں سیاسی میدان میں ہونی چاہئیں‘ اس سلسلے میں حکمران جماعت سمیت تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں اپنے کسی بھی مطالبے یا حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف غم و غصہ کے اظہار کیلئے ایسے مقامات کا استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس سے صورتحال مزید خراب ہوگی‘مزار قائد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مینجمنٹ بورڈ مزار کرتا ہے جو نیشنل ہسٹری اینڈ ہیریٹیج وزارت کے ماتحت ادارہ ہے اور اس وزارت کے وزیر تحریک انصاف کے شفقت محمود ہیں۔ بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق مزار قائد کیلئے کل 131ایکڑ رقبہ مختص کیا گیا ہے جس میں سے 61ایکڑ پر باغ جناح اور مزار موجود ہے جبکہ دیگر اراضی مستقبل کے منصوبے کےلئے وقف (محفوظ) رکھی گئی ہے۔مزار کی ضروری مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات مزار کے فنڈ سے پورے کئے جاتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت بھی اِس مقصد کے لئے خصوصی مالی وسائل (گرانٹ) فراہم کرتی ہے۔کراچی کی سیر کےلئے جانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ’مزار قائد‘ کراچی کے سیاحتی نقشے پر سرفہرست ہے اور شہر کی سب سے بڑی تفریح گاہ ہے‘ جہاں نہ صرف اہل کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ حاضری اور سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں عجائب گھر بھی واقع ہے جس میں بانی پاکستان اور ان کی بہن فاطمہ جناحؒ کے زیراستعمال روزمرہ استعمال کی اشیا‘ گاڑیاں اور اِن سے متعلق تصاویر وغیرہ نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مزار قائد مقدس جگہ ہے جہاں فاتحہ خوانی کے علاوہ کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ملک کی تین مرتبہ قیادت کرنے والی سیاسی جماعت (نوازلیگ) سمجھتی ہے کہ پاکستان میں ’ووٹ کو خاطرخواہ عزت‘ حاصل نہیں تو اِس کے لئے غصے اور طیش کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ طرزفکروعمل کی بجائے سیاسی حدود و قیود کا تعین اور قوم کے جذبات کا اِحترام بھی ضروری ہے‘ تاکہ ایسا ماحول پروان نہ چڑھے جس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے بڑھیں اور عوام بھی انتشار کا شکار ہوں۔