بے زبان لوگ

معمول کا منظر ہے کہ پشاور کے تین تجارتی مراکز گھنٹہ گھر (اندرون شہر)‘ فوارہ چوک (صدر) اور سپین جماعت چوک (یونیورسٹی ٹاو¿ن) میں سڑک کنارے محنت کش قطاروں میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اِن میں کچھ کی نگاہیں سڑک سے گزرنے والی ہر گاڑی اور ہر شخص کا تاحد نظر تعاقب کرتی ہیں کہ کہیں کوئی شناسا‘ کہیں کوئی مہربان‘ کہیں کوئی طلبگار اِن طلبگاروں کی جانب متوجہ ہو! مزدوری ملنے کے اِن طلبگاروں میں سے کچھ نے تھک کر اپنے سر گھٹنوں میں دے رکھے ہوتے ہیں اور کچھ کے لئے گردوپیش کے شورشرابے (گہماگہمی) سے بے نیاز ہو کر زمین پر نظریں جمائے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ عزت نفس کی معراج پر فائز‘ یہ وہ ”بے زبان لوگ“ ہیں جن کے کھدرے ہاتھ بھکاریوں کی طرح پھیلتے نہیں‘ جن کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں مستقبل کے خواب نہیں بلکہ بھوک و افلاس کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ اِنہیں حکمرانوں اور معاشرے سے سوائے مزدوری کچھ اور نہیں چاہئے۔ عجیب ہے کہ غریبوں کی بہبود کے لئے سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن ایسے مزدوروں کی حسب خواہش مدد تو بہت دور کی بات اِن کے کوائف تک مرتب نہیں جن کی مدد سے منصوبہ بندی کی جا سکے اور یہی فیصلہ سازوں اور معاشرے کے درمیان وہ ’کمزور تعلق ہے جسے توانا اور مضبوط بنانے کی اَشد ضرورت ہے۔خیبرپختونخوا کی سطح پر ہنرمند اور بے ہنر افرادی قوت کے کوائف مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عمر‘ تعلیم‘ تجربے‘ جسمانی وضع قطع اور علاقائی (اضلاعی) سطح پر ہنرمندی کے منصوبے شروع کئے جا سکیں اور ایسے تمام افراد کو تکنیکی امور سے لیس کیا جا سکے جنہیں باوجود خواہش و کوشش بھی روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔ بے روزگاری کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی ایک صوبے کی داستان ہے بلکہ جو شہر اور دیہی علاقہ آبادی کے لحاظ سے جس قدر بڑا ہے اُس میں بیروزگاروں کی تعداد بھی اُسی قدر زیادہ ہے۔ دوسری طرف تعلیم (درس و تدریس) کا روایتی نظام اور نصاب عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں جس میں میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے اور ایم اے تو کیا پوسٹ گریجویشن یا ڈاکٹریٹ کی اسناد رکھنے والے ”سند یافتہ“ تو ہوتے ہیں لیکن ’جاب مارکیٹ‘ کے مطابق (خاطرخواہ) ”تعلیم یافتہ“ نہیں ہوتے اور یوں ہر سال بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ جنہیں معمولی سی کوشش سے شمار کرتے ہوئے جاب مارکیٹ کےلئے باآسانی تیار کیا جا سکتا ہے لیکن جب تک یہ کام نہیں ہوتا اُس وقت تک انٹرنیٹ پر منحصر ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کا سہارا لیتے ہوئے قومی و صوبائی سطح پر ’ڈیٹابیس‘ مرتب کرنا ہوگی تاکہ فیصلہ سازی کے عمل میں ترجیحات کا درست تعین ہو سکے۔ ”فی خاندان ایک سرکاری نوکری“ کا تصور بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے اور جس خاندان کا ایک فرد سرکاری ملازم ہو‘ اُس کے مقابلے ایسے خاندان کو ترجیح دینی چاہئے جہاں کوئی سرکاری ملازم موجود نہ ہو۔ مرحلہ وار اور بتدریج اِصلاحات کے لئے ’اعدادوشمار‘ کا ہونا اشد ضروری ہے اور جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہوتا‘ حکومت اور مخیر حضرات کے کندھوں پر ذمہ داری عائد ہے کہ وہ معاشرے کے اُن طبقات کی جانب بھی توجہ کریں جو کسی کے سامنے اپنی ضروریات کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور چاہتے ہیں کہ اُنہیں باعزت روزگار ملے۔ ارفع سوچ رکھنے والے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ اور ادائیگی کےلئے حکومت اور نجی شعبے کو مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔توجہ طلب ہے کہ حکومتی اِداروں کی طرح مخیر خواتین و حضرات کا طرزعمل بھی نظرثانی چاہتا ہے۔ روزمرہ کا معمول ہے کہ ہمیں گردوپیش میں درجنوں مقامی‘ قومی اور عالمی فلاحی تنظیموں کے اراکین وقتاً فوقتاً چھوٹے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ فیس بک‘ ٹوئیٹر اُور واٹس ایپ گروپوں میں ایسی تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار رہتی ہے۔ چند افراد کی مدد کرنےوالے درجنوں کے حساب سے اپنی تصاویر اَخبارات سے لیکر سوشل میڈیا تک پھیلا دیتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی موجودہ زمانہ ’نمودونموئش‘ کا ہے جس میں ہر کس و ناکس کی کوشش (نیت) دکھائی دیتی ہے کہ وہ دوسروں کو ’نیکی کی ترغیب‘ دلائے جبکہ اِس کے اپنے عمل پر خودنمائی غالب نظر آتی ہے اور وہ اِمدادی کوششیں کہ جو کسی اسلامی معاشرے کا خاصہ ہونی چاہیئں اور جنہیں دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کیا جا سکے کہ نیکی کرتے ہوئے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہیں ہونی چاہئے کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ اگرچہ خیرات‘ صدقات یا دیگر نیکیوں کو سرانجام دینے کا ہر طریقہ بشمول نمودونمائش بھی جائز (قابل قبول) ہے لیکن اِن میں افضل (پسندیدہ) طریقہ¿ کار وہی ہے کہ جسے رازداری سے (بنا نمودونمائش) کیا جائے۔ عادت اور معروف رجحانات سے چھٹکارہ باآسانی ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر بلند مقصد (زیادہ ثواب) کو مدنظر رکھا جائے تو کوششیں رنگ لا سکتی ہیں اور انہی کوششوں کی برکات چراغ سے چراغ جلنے کی صورت ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔ سوشل میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنے والے محتاط رہیں کہ کہیں یہ انداز اِن کی نیکیوں کو بھسم ہی نہ کر دے! اِس سلسلے میں ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ مخیر خواتین و حضرات ابتدا میں فلاحی کام سرانجام دیتے ہوئے اپنی محنت کا کچھ حصہ خاموشی سے سراَنجام دیں اور پھر اِس خاموشی محنت کا سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھاتے چلے جائیں تو اِس سے اِنہیں فوری روحانی خوشی (مسرت و اطمینان) حاصل ہوگا‘ جو اِس بات کا مظہر اور یقین کی شکل ہوگی کہ اُن کی پُرخلوص کوششیں جہاں پیش ہونی چاہئیں تھیں‘ وہاں سے قبولیت کی سند پا چکی ہے۔ تجربہ شرط ہے۔ ”فرشتے سے بڑھ کر ہے اِنسان بننا .... مگر اِس میں لگتی ہے محنت زیادہ (الطاف حسین حالی)“