لاعلمی کی حقیقت

انٹرنیٹ سے بامقصد استفادہ کرنے کے بارے میں ہر خاص و عام کے شعور (خواندگی) میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے تاکہ اِس ذریعے کو صرف اور صرف تفریح طبع (انٹرٹینمنٹ) ہی کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اِس کے ذریعے علوم و فنون کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل کی جائے اور روایتی درس و تدریس کی طرح اِسے بھی قابل بھروسہ وسیلہ سمجھتے ہوئے اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے۔ کورونا وبا کی وجہ سے چھ ماہ سے زائد تعلیمی ادارے بند رہنے کی وجہ سے آن لائن (انٹرنیٹ) وسائل کا استعمال ہوا لیکن یہی عرصہ ’آن لائن بے راہ روی‘ کے عروج کا بھی تھا جب صارفین کی بڑی تعداد نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منفی انداز میں پیش کیا اور حکومت کو مختلف وسائل (ایپلی کیشنز) پر پابندی جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے۔ اِنہی میں سے ایک رواں ماہ دس روزہ (9 سے 19 اکتوبر تک) ’ٹک ٹاک (TikTok)‘ پر پابندی عائد کا دور تھا‘ جس پر حیرانی کا اظہار کئے بغیر مذکورہ پابندی اُٹھانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان زھو لیجیان (Zhao Lijian) نے معمول کی پریس بریفنگ میں جہاں پابندی دوبارہ عائد نہ ہونے کی اُمید کا اظہار کیا وہیں یہ وضاحت بھی پیش کی کہ ”عالمی سطح پر خدمات فراہم کرنے والے چینی اداروں کو ہمیشہ اِس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف عالمی قواعد اور مقامی قوانین بلکہ ہر ملک کی ثقافت اور مذہبی عقائد کا بھی احترام کریں۔“ لائق توجہ ہے کہ اِس بیان میں چین کی کامیاب کاروباری حکمت عملی کا بیان اور خلاصہ ذکر ہوا ہے جبکہ پاکستان سمیت دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ چین کی کسی بھی آن لائن یا آف لائن اور سرکاری یا نجی کمپنی سے‘ کسی بھی ملک کو خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اُن کے ہاں اخلاقیات و اقدار کو متاثر کریں گی بلکہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال جن خرابیوں کا باعث بن رہا ہے اُس کے لئے کسی دوسرے کو موردِالزام ٹھہرانے کی بجائے ہر ملک کو اپنے ہاں آن لائن صارفین کی تربیت کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ یہی وہ لمحہ¿ فکر ہے جس پر ہمارے قومی فیصلہ سازوں اور دانشور حلقوں کو غور کرنا ہوگا کہ دوسروں کو خرابی کا ذمہ دار ٹھہرانے یعنی ’ٹک ٹاک‘ یا دیگر آن لائن اِداروں پر پابندی عائد کرنے کی صورت جگ ہنسائی کی بجائے ’آن لائن وسائل‘ سے استفادہ کرنے والوں کی تربیت و آگاہی کے لئے بالکل اُسی طرح انتظام ضروری ہے جیسا کہ کورونا وبا سے بچنے کے لئے بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے بڑے پیمانے پر اعلانات مشتہر کئے جاتے ہیں۔ اب جبکہ مذکورہ پابندی ختم کر دی گئی ہے تو ’ٹک ٹاک‘ کی جانب سے متعلقہ نگران ادارے ’پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ اور ملک کے دیگر اداروں سے غیرمشروط تعاون کی یقین دہانی سامنے آئی ہے اور پاکستان شاید دنیا کا ایسا واحد خوش قسمت ملک ہے جہاں چین کی حکومت اور چین کے ایک نجی آن لائن ادارے ’ٹک ٹاک‘ نے حکومت کے مو¿قف اور تشویش کو سمجھتے ہوئے تعاون کیا ہے بصورت دیگر پاکستان کے مقابلے زیادہ بڑے اور طاقتور ملک امریکہ نے جب ’ٹک ٹاک‘ کے فیصلہ سازوں سے اِس قسم کا تعاون مانگا تو چین کی حکومت اور کمپنی نے اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کر لیا لیکن امریکی حکومت کی تسلی و تشفی کروانے کے لئے غیرمشروط تعاون نہیں کیا۔ پاک چین دوستی کی یہ نئی جہت بطور خاص لائق توجہ ہے جس میں چین صرف روایتی دوست اور ہمسایہ ملک ہی کے طور پر اُبھر کر سامنے نہیں آیا بلکہ اِس نے پاکستان کی تاریخ و ثقافت اور یہاں کی اقدار اور اُن کی اہمیت کو بھی سمجھا ہے۔ وہ سبھی حلقے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اِسے پاکستان کی ثقافت اور معاشرے (سماج) کے لئے ایک قسم کا خطرہ قرار دیتے ہیں یقینا اُنہیں جواب مل چکا ہے کہ ’سی پیک‘ سے پاکستان کا ثقافتی تشخص خطرے میں نہیں اور نہ ہی چین اپنا سیکولر طرزحکمرانی یا ثقافت پاکستان یا سی پیک اور ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ سے جڑے دیگر ملکوں پر مسلط کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ بحث کا یہ نکتہ سنجیدہ ہے اور سنجیدگی سے غور و فکر کا متقاضی ہے کہ کاروبار ’آن لائن‘ ہوں یا ’آف لائن‘ اِن کی اخلاقیات زیادہ سے زیادہ مالی منفعت ہوتی ہے تو پاکستان میں آن لائن وسائل کی ضرورت (مانگ و طلب) کو سمجھتے ہوئے ورچوئل دنیا کی تعمیروترقی میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کی جاتی؟ قومیت‘ حب الوطنی اور اَقدار جیسی خصوصیات سے بھرپور اور ”سوفیصدی مقامی حل“ متعارف ہونے چاہئیں‘ جن کے خدوخال اور کام کاج کے طریقہ¿ کار (اسلوب) وضع کرنے والے شروع دن سے اِس کے اخلاقی و تعمیری پہلوو¿ں کو مدنظر رکھیں؟