افغان تنازعہ اور پاکستان کا مصالحتی کردار

افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئرگلبدین حکمت یار کا کہناہے کہ امریکا افغانستان میں اپناکوئی بھی ہدف حاصل نہیں کرسکا اور ان کی اپنی مسلط کردہ کابل حکومت اسے ڈبونے کا موجب بنی۔اب امریکہ کےلئے اپنی کٹھ پتلی کابل حکومت بچانابھی مشکل ہوگیاہے۔اپنے دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ طالبان بھی افغانستان میں بدامنی اور خانہ جنگی کی ذمہ دارکابل حکومت کو گردانتے ہیںان کا یہ مطالبہ ہے کہ کابل میں غیر جانبدارقومی حکومت قائم ہونی چاہئے بے شک اس میں طالبان کی نمائندگی نہ ہو۔ ٹینکوں سے گولہ باری اور جہازوں سے بمباری کرکے طالبان سے امن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ جومضحکہ خیز ہے۔افغانستان کی موجودہ حکومت امن قائم نہیں کرسکتی‘امن کی بحالی اولین ضرورت ہے سول سوسائٹی کو فعال بنانااور خواتین کے حقوق اورتعلیم نسواں ثانوی باتیں ہیں ۔حکمت یار کا دعویٰ ہے کہ امریکی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہار بھی گئے تو افغانستان سے امریکی فوجی انخلاءکا پروگرام متاثر نہیں ہوگا۔افغانستان سے انخلاءسی آئی اے اور دیگراداروں کا فیصلہ ہے، امریکہ طالبان سے معاہدہ نہ بھی کرتا تو اسے وہاں سے نکلنا تھا، افغان قوم کا مطالبہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلتے ہوئے تمام افغانوں کومذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے حکمت یار کا دعویٰ ہے کہ حزب اسلامی اور طالبان مل کر افغان مسئلے کاحل نکال سکتے ہیں۔ افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ سربراہ عبداللہ عبداللہ کے بعد سابق وزیراعظم گل بدین حکمت کے دورہ پاکستان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغان عوام خانہ جنگی سے تباہ حال ملک میں امن کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں ۔امریکہ بھی افغان امن عمل اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کے کردار کا معترف ہے ۔تاہم پاکستان خانہ جنگی کے خاتمے اور پائیدار امن کی بحالی کے لئے سہولت کار کا کردار ہی ادا کر سکتا ہے۔ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے خود مل بیٹھ کر ہی کرنا ہے۔ حکمت یار نے ایک تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امریکہ کو بیس سالہ جنگ میں اپنے فوجیوں کی تابوتوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اسے بے نیل و مرام کابل چھوڑنا پڑرہا ہے۔ کیونکہ امریکہ کی معیشت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے مزید اخراجات اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اب جبکہ امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلاءکا حتمی فیصلہ کرلیا ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام متحارب افغان گروپوں کو بٹھاکر امن فارمولہ تیار کرے ۔طالبان کی طرف سے افغانستان میں وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ افغان کشیدگی کا واحد ممکنہ حل ہے۔ فوجی انخلاءکے بعد افغانیوں کو بھلانے کی دوبارہ غلطی امریکہ کو بہت مہنگی پڑے گی ۔ ڈالروں کے مصنوعی سہارے پر کھڑی افغان معیشت امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاءکے ساتھ زمین بوس ہوسکتی ہے ۔ امریکہ کو کم از کم دس سال کے لئے افغان معیشت کو سہارا دینے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس حوالے سے نیٹو اور دیگر اتحادیوں کی معاونت بھی افغان معیشت کو بہتر بنانے میں مدد گار ہوسکتی ہے۔ پڑوسی اسلامی ملک ہونے کے ناطے افغانستان میں بدامنی، خانہ جنگی، سیاسی عدم استحکام اور بیرونی مداخلت سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد چالیس لاکھ افغانی اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے جن میں سے پچاس فیصد سے زائد اب تک پاکستان میں رہائش پذیر ہیں ۔ ان پناہ گزینوں کے ذریعے پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر متعارف ہوا دہشت گردی کی لہر بھی وہیں سے پاکستان میں درآئی جس کی وجہ سے نہ صرف 80ہزار پاکستانی اپنی جانوں سے گئے بلکہ اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوا۔ افغانستان میں پائیدار امن کا قیام خود پاکستان میں امن و ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان متحارب افغان دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی مخلصانہ کوششیں کررہا ہے۔توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔