اَشیائے خوردونوش میں سرفہرست جنس (گندم) سے متعلق ’حکومتی حکمت عملی‘ کا تعلق کروڑوں افراد کی بنیادی غذائی ضرورت سے ہوتا ہے اوراِسی لئے گندم کی اہمیت دیگر خوردنی اجناس کے مقابلے (نسبتاً) زیادہ ہے جس سے متعلق فیصلہ سازی اور غذائی و خوردنی استحکام بحال رکھنے پر کسی حکمراں جماعت کی کامیابی و ناکامی کا انحصار رہتا ہے اور یوں ’گندم پالیسی‘ حکومتی کارکردگی سے مشروط دیکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ اِسی گندم پالیسی کی بنیاد پر قومی فیصلہ سازوں کی ذہانت کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر گندم سے متعلق حکومتی اعدادوشمار (دعوے) اور زمینی حقائق متصادم ہیں۔ گندم بحران سے خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے حکومتی جماعت گندم کی قیمت کا تعین کرنے والی منڈی اور آزاد معیشت کا حوالہ دیتی ہے جبکہ منڈی (تھوک) کی سطح پر گندم کی قیمت کا تعلق براہ راست حکومتی پالیسی سے جوڑتے ہوئے تاجر فیصلہ سازی میں تاخیر سمیت اُن دیرینہ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کی وجہ سے گندم کی قلت ہر سال طویل یا مختصر عرصے کے لئے پیدا ہوتی ہے اور اب یہ معمول بن چکا ہے کہ نئی فصل آنے سے تین ماہ قبل گندم اِس حد تک ناپید ہو جاتی ہے کہ اِسے بھاری قیمت پر درآمد کرنا پڑتا ہے اور اِسی قلت و درآمد کے سبب ’گندم کی خریدوفروخت میں تیزی (افراتفری) کا ماحول بنا رہتا ہے جو درحقیقت غذائی عدم استحکام ہے اور سینکڑوں ہزاروں افراد کے متاثر ہونے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں ’آٹے کی فی کلوگرام قیمت اگر 35 سے 60 روپے تک جا پہنچی ہے تو اِس میں کمی کا فوری امکان نہیں اور گندم کی نئی فصل (مارچ‘ اپریل 2021ئ) سے پہلے آٹا مہنگا رہے گا۔ اِس دوران حکومت کی کوشش صرف یہ ہے کہ آٹے کی قلت پیدا نہ ہو اور اِس مقصد کےلئے مہنگے داموں گندم درآمد کی گئی ہے۔ مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ بحری جہاز رانی کے وفاقی وزیر نے اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ سے قوم کو ”خوشخبری“ دی ہے کہ بیرون ملک سے گندم آ نہیں رہی بلکہ ”گندم آ چکی ہے!“ ایک ایسا زرعی ملک جہاں ہر سال مقامی ضرورت سے زیادہ گندم کی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور حکومت کو گندم برآمد کرنے کی اجازت دینا پڑتی ہے وہاں نہ صرف گندم کی قلت ہے بلکہ مہنگے داموں گندم درآمد بھی کرنی پڑی ہے اور اگرچہ یہ فخریہ بات نہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وفاقی وزیر نے گندم درآمد کرنے پر جس سیاسی انداز میں ’خوشی‘ کا اظہار کیا ہے وہ لمحہ¿ فکریہ ہے!تحقیق سے معلوم ہوا ہے اور یہ اعدادوشمار خود سرکاری اداروں کے مرتب کردہ ہیں کہ سال 2020ءکے دوران پاکستان میں گندم کی پیداوار کا ہدف 27 ملین ٹن لگایا تھا جبکہ پیداوار 25 ملین ٹن حاصل ہوئی لیکن حکومتی اعدادوشمار میں اِسے 26.10ملین ٹن دکھایا گیا۔ گندم کی پیداوار میں کمی اور ذخیرے کو مدنظر رکھتے ہوئے آبادی اور ضرورت کے مطابق 8 ملین ٹن مزید گندم خریدنا تھی لیکن اِس کی بجائے 6 ملین ٹن گندم خریدی گئی۔ جب حکومت مارکیٹ میں موجود گندم کی 2 ملین ٹن کم خریداری کر رہی تھی تو اُس وقت بھی مارکیٹ ذرائع اور کاشتکار اِس بارے توجہ دلا رہے تھے لیکن کسی کی ایک نہیں سنی گئی اور ایک ایسے ممکنہ بحران کو نظرانداز کیا گیا جو اب پوری شدت سے پاکستان کے عام آدمی (ہم عوام) کو متاثر کئے ہوئے ہے!فلور ملیں روایتی طور پر 1.5 ملین سے 1.8 ملین ٹن تک گندم مارکیٹ سے خرید کر ذخیرہ کرتی ہیں اور یہ خریداری عام مارکیٹ سے اُس وقت کی جاتی ہے جب حکومت اپنے حصے کی خریداری مکمل کر لیتی ہے۔ یہیں سے گندم کی قیمتیں بڑھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ تھوک مارکیٹ میں گندم گوداموں میں پڑے ہوئے کئی افراد کو فروخت ہو جاتی ہے اور اجناس پر ہونے والے اِس سٹے بازی کی وجہ سے گندم کی قیمت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ جب فلور ملیں مارکیٹ سے مہنگے داموں گندم خریدیں گی تو وہ اِس سے بننے والے آٹے کو بھی مہنگا ہی فروخت کریں گی۔ حکومت نے فلور ملوں کو زیادہ گندم ذخیرہ کرنے سے منع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے اُنہیں صرف تین دن کی ضرورت کے مطابق گندم رکھنے کی اجازت ہے اور اِس وجہ سے فلورملوں کو مہنگی گندم خریدنا پڑ رہی ہے۔ بہرحال اِس بحران سے نکلنے کے لئے حکومت نے جون (دوہزاربیس) میں 1.5 ملین ٹن ڈیوٹی فری گندم درآمد کرنے کی اجازت دی جس کے پاکستان پہنچنے میں ایک مہینہ لگا لیکن تب تک مارکیٹ میں آٹے کی قیمتیں بڑھ چکی تھیں اور یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ نجی شعبے نے پچاس لاکھ ٹن گندم کم درآمد کی۔ تصور کریں کہ جب پاکستان 3 ملین (تیس لاکھ) ٹن گندم کی ضرورت لئے عالمی منڈی میں پہنچا تو جون دوہزار بیس میں قیمت 230 ڈالر فی ٹن سے جولائی کے اختتام تک 280ڈالر فی ٹن ہو چکی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت نے گندم کی فی من (چالیس کلوگرام) قیمت 1475 روپے مقرر کی تھی لیکن یہ 2100 روپے فی من خریدی گئی! نجی شعبے نے فی من 725 روپے کے اِس فرق کو قابل برداشت بنانے کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گندم کی سرکاری قیمت میں اضافہ کرے تاکہ مہنگے داموں درآمد ہونے والی گندم کچھ منافع کے ساتھ فروخت کی جائے لیکن اگر حکومت ایسا کرتی تو اِس کے سیاسی نقصانات بہت زیادہ ہو سکتے تھے اور عوامی دباو¿ سے بچنے کے لئے گندم کے سرکاری نرخ نہیں بڑھائے گئے۔ بات جون سے جولائی اور جولائی سے اگست تک جا پہنچی تو حکومت نے نجی شعبے کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے سرکاری ادارے (ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان) کو پندرہ لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا حکم دیا لیکن اب مشکل یہ تھی کہ اِس مقصد کے لئے 75 ارب روپے درکار تھے‘ جو فوری دستیاب نہیں تھے۔مسئلہ گندم کی کم پیداوار سے پیدا ہونے والی قلت اور اِس قلت کو درآمد سے دور کرنے کا نہیں بلکہ غلط اعدادوشمار کی بنیاد پر اُس فیصلہ سازی کا ہے‘ جس کے باعث ہر سال بنیادی ضرورت کی ایک نہایت ہی اہم جنس کی کمی ہوتی ہے! ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی مہنگے داموں گندم خریدنے اور ڈیوٹی فری درآمدات کی اجازت دینے میں راہ نجات تلاش کر رہی ہے لیکن اپنے زرعی شعبے اور اپنے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے زرعی شعبے کی سرپرستی کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلے کا واحد اور پائیدار حل صرف یہی ہے کہ قومی فیصلہ سازی کے مراحل میں ترجیح زرعی معیشت و معاشرت ہی ہونے چاہئیں۔