انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت نے خیبر پختونخواسمیت ملک بھر کے ایک ہزار چار سو دور افتادہ دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ سروسز کیلئے پانچ ارب گیارہ کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری دی ہے۔وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق خیبر پختونخوا ،سندھ اور بلوچستان کیلئے تیز ترین آئی ٹی منصوبے بنائے گئے ہیں ‘منصوبوں کا بنیادی مقصد سیاحت کا فروغ اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد کو ڈیجیٹل ورلڈ کے دائرے میں لانا ہے جن علاقوں کے لوگ اب تک براڈ بینڈ سروسز سے محروم ہیں جلد ہی ان علاقوں تک یہ منصوبے پہنچ جائیں گے۔ یو ایس ایف کے تحت ٹیلی نار، زونگ، یوفون اور پی ٹی سی ایل کو منصوبے تفویض کئے جائیں گے۔اس منصوبے سے 56 لاکھ سے زائد افراد ڈیجیٹل رابطوں سے مستفید ہونگے۔ خیبر پختونخوا میں چترال،دیر بالا اور دیرپائین کو ابتدائی مرحلے میں تیز ترین انٹرنیٹ سروس سے منسلک کیا جائے گا۔ پی ٹی سی ایل اور پرائیویٹ موبائل فون کمپنیاں منصوبوں کی بروقت تکمیل کے پابند ہوں گی براڈ بینڈ سروسز کے منصوبوں کی نگرانی کے لئے ایک مانیٹرنگ بورڈ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ بورڈکے ارکان میں چیئرمین پی ٹی اے،موبائل کمپنیوں کے سربراہان اور کنزیومر ایسوسی ایشن کے چیئرمین شامل ہیں۔موجودہ دور کے عالمگیر معاشرے میں انٹرنیٹ بجلی، گیس، صاف پانی اور سیوریج لائن کی طرح بنیادی شہری سہولیات میں شامل ہوگیا ہے۔حالیہ دنوں میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی جب مختلف سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں نے کورونا لاک ڈاﺅن کے دوران آن لائن کلاسز کا آغاز کیا۔ ان اداروں میں زیرتعلیم پچاس فیصد سے زائد طلبا ءکا تعلق دیہی علاقوں سے تھا اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان کے قیمتی سات مہینے ضائع ہوگئے۔ کچھ طلباءوطالبات آن لائن کلاسز سے استفادہ کرنے کے لئے شہری علاقوں کے بورڈنگ ہاﺅسز اور پرائیویٹ ہاسٹلوں میں شفٹ ہوگئے ۔خیبر پختونخوا کے لاکھوں لوگ حصول تعلیم اور روزگار کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں میں رہتے ہیں ‘صرف سعودی عرب، دبئی، شارجہ ،قطر ، کویت اور مشرق وسطیٰ کے دیگر شہروں میں محنت مزدوری کرنے والے اس صوبے کے افراد کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پچیس لاکھ ہے ۔انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے والدین اور بال بچوں سے سالوں تک رابطہ نہیں کرپاتے۔اگرچہ موبائل فون سروس نے کسی حد تک ان کی مشکلات کم کردی ہیں لیکن اکثر دیہی خصوصاً پہاڑی علاقوں میں موبائل ٹاورز کی کمی، سگنل نہ آنے یا کمزور سگنلز کی وجہ سے رابطوں میں بار بار خلل پڑرہا ہے۔موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاحت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لئے اربوں روپے کی لاگت سے درجنوں منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے جن میں شاہرات کی تعمیر، کیبل کار سروس شروع کرنا، ہوٹل انڈسٹری کی حوصلہ افزائی اور سیاحتی مقامات کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا پروگرام شامل ہے۔ سیاحتی مقامات کو تیز ترین انٹرنیٹ سروس کی فراہمی سے سیاحت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔پاکستان میں 80فیصد سیاحتی مقامات خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں واقع ہیں جن میں گلیات، وادی کاغان، ناران، الائی، کوہستان، کالام، بحرین، ملم جبہ، مرغزار، کمراٹ، وادی کیلاش، مدکلشٹ، گرم چشمہ، برموغ لشٹ، تریچ میر، قاق لشٹ، شندور اور بروغل شامل ہیں۔