جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور سچ وہ جو در و دیوار سے اُٹھتا سنائی دے۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل بھی حقیقت کا ایک رخ ہیں جہاں زیرگردش ایک لطیف بات معنی خیز ہے جس میں طبی معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر مریض سے کہتا ہے کہ ”فکر کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اُس کے سبھی تجزیات ٹھیک آئے ہیں لیکن تشویش کی بات صرف اتنی ہے کہ کینسرکی انتہائی خطرناک حالت تشخیص ہوئی ہے۔“ اِس غیرسیاسی لطیفے کا تعلق اگرچہ کسی بھی طرح حکومتی کارکردگی سے نہیں لیکن اگر ڈاکٹر کے اِس بیان کو ایک مختلف زوایئے سے دیکھا جائے تو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے تمام تر دعوو¿ں کے باوجود جب مہنگائی کا اعتراف کیا جاتا ہے تو اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کے دل پر کیا گزرتی ہے اور بھلے ہی معاشی و اقتصادی امور کے ماہرین حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے دعوو¿ں پر یقین کریں اور اُن کی معیشت کے مثبت اشاریئے قرار دیں لیکن ایک عام آدمی کے لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس بنیاد پر ایک ایسی ”کھوکھلی معاشی بہتری و ترقی“ کا دعویٰ کیا جا رہا ہے‘ جس نے عوام کی زندگیاں مشکلات و تفکرات سے بھر دی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں مہنگائی ہر دن بڑھ رہی ہے تو قومی معیشت بہتر کیسے ہو سکتی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ بنیادی استعمال کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو قرار نہیں تو قومی معیشت کی بے قراری جیسی حقیقت کو کیونکر تسلیم نہیں کیا جاتا؟ اِس پورے معاملے میں ایک عام آدمی کا نکتہ¿ نظر اِنتہائی مختلف ہے جس کا انحصار قومی مالیاتی حکمت عملی اور ہر دن جاری ہونے والے اَعدادوشمار پر نہیں بلکہ اُس کا واسطہ ”روٹی روزی“ سے ہے اور ملک کی معاشی صورتحال ایک ایسے غیریقینی کے دور سے گزر رہی ہے کہ یہ ’روٹی روزی دونوں ہی خطرات سے دوچار ہیں!‘ معیشت کا تعلق عام آدمی کے اِطمینان اور اِطمینان کا نتیجہ اُس کی نجی و کاروباری زندگی میں سکون سے ظاہر ہوتا ہے۔ کسی کنبے کی کفالت کرنے والا اگر معاشی تفکرات لئے گھر سے نکلے گا اور دن کے اختتام پر گھر واپس ہوتے ہوئے بھی اگر اُس کی کمائی میں سوائے پریشانیوں کی کثرت ہوگی تو اِس صورتحال کے منفی اثرات سے خاندانی نظام‘ بچوں کی تعلیم و صحت اور تربیت بھی لازماً متاثر ہوں گے اور یہی وہ مرحلہ ہے‘ جس کے بارے میں فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کیونکہ وہ عوام کے منتخب کردہ اور نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔قارئین کی ایک تعداد سیاسی و غیرسیاسی موضوعات پر اظہار خیال کو موجودہ حالات میں غیرضروری سمجھتے ہوئے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اشیائے خوردونوش کی مسلسل گرانی سے متاثر ہونے والے اُس عام آدمی کی کہانی لکھیں جس کی آنکھوں میں خواب اور دل میں معاشی خوشحالی کے اچھے دن دیکھنے کی اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں! لیکن مسئلہ تو عام آدمی کا ہے جسے حالات اور حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا کوئی ہے جو معاشی پریشانیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پیام بر کا کردار ادا کرتے ہوئے قومی و صوبائی‘ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو گرانی کی جانب متوجہ کرے؟ ”اُن سے مایوس التفات نہیں .... گو بظاہر توقعات نہیں! (نصیر آرزو)۔“