بدقسمتی سے بچوں اوربچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتاجارہاہے اس کے کئی عوامل ہیں جن پر تفصیلی بحث ہوسکتی ہے اورجب تک تمام عوامل کو سامنے لاکران کے تدار کے لئے سنجیدہ اوراجتماعی کوششیں نہ کی جائیں صورت حال میں بہتری کی امید رکھنا مشکل ہے بعض لوگ ان واقعات میں اضافہ کو براہ راست سوشل میڈیا کی مادر پدرآزادی کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں یہ امر یقینا تشویشناک ہے کہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبہ بھر مےں بچوں کےساتھ زےادتی کے واقعات مےں خطرناک حد تک اضافہ رےکارڈ کےاگےا ہے ‘رواں سال مجموعی طور پر 184 بچوں کو زےادتی کانشانہ بناےا گےا جبکہ 4بچوں کو زےادتی کے بعد بےدردی کےساتھ قتل کےاگےا ہے ‘اعداد و شمار کے مطابق کوہاٹ ¾ مردان ¾ نوشہرہ ایسے اضلاع کی فہرست میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں جہاں زےادتی کے بعدبچوں کا قتل کےاگےا ہے جبکہ ان واقعات مےں نامزد 235ملزموں کو گرفتار کےاگےا ہے ‘ سب سے زےادہ واقعات ڈےرہ اسماعےل مےں پےش آئے جہاں رواں سال کے دوران 34بچوں کو زےادتی کانشانہ بناےاگےا‘پشاور مےں 26 ¾ مردان 19¾ سوات 17اور نوشہرہ مےں 13 واقعات رونماہوئے اس سال بٹگرام ¾ اپر ¾ لوئر کوہستان ¾ ہنگو اور ٹانک مےں کوئی کےس رپورٹ نہےں ہوا ‘چارسدہ مےں بچوں کےساتھ زےادتی کے 5 واقعات رپورٹ ہوئے ‘صوابی 7 ¾ بونےر 6¾ شانگلہ 3¾ دےر لوئر مےں 7 ¾ دےر اپر 6¾ چترال 1¾ اےبٹ آباد 5¾ ہری پور 4¾ مانسہرہ 8 ¾تورغر 1 ¾ کوہاٹ 9¾کرک 4¾ بنوں 3 اور لکی مروت مےں 4 کےسز رپورٹ ہوئے ‘پشاور مےں 35¾ مردان 26 ¾ چارسدہ 9¾ نوشہرہ 21¾ شانگلہ 4 دےر لوئر 9¾ دےر اپر مےں 10ملزموں کو گرفتار کےاگےا ہے‘ اسی طرح ایک ا ور رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ سا ل میں صوبہ میں376کیسز رپورٹ ہوئے ہیں‘گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلہ میں رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران ایسے کیسوں میں چودہ فیصد اضافہ بھی دیکھنے میں آیاہے صوبہ میں متاثرہ بچوں میںسے 48فیصدکی عمریں سات سے گیارہ سال تک ہوتی ہیں ‘ایک سروے کے مطابق زیادتی میں ملوث 55فیصدملزمان رشتہ داریا قریبی جاننے والے ہوتے ہیں ‘ان کامتاثرہ بچوں کے گھرباقاعدگی سے آناجاناہوتاہے ‘صوبہ میں سترفیصدکیسز شہری اورتیس فیصد دیہی علاقوںمیں ہوئے ہیں پچپن فیصد ملزمان کی عمرچودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہوتی ہے ‘ملزمان میں تیس فیصد بچوں کے ساتھ زیادتی کے دویا زیاد ہ کیسوں میں ملوث پائے گئے ہیں ‘بہت سے کیسز میڈیا تک نہیں آتے نہ ہی رپورٹ ہوتے ہیں اکثر جرگوںکے دباﺅ پردبا لئے جاتے ہیں اس سلسلے میں صوبہ بھر میں ان زیادتی کے واقعات کے خلاف بھرپور مہم چلائی جانی چاہیئے اور حکومت عوام میں شعوراجاگر کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے۔صوبہ میں اس وقت چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ تو نافذ ہے مگراب قوانین کو مزیدسخت کیاجارہاہے ‘اب زیادتی میں ملوث ملزم کے ہاتھوں متاثرہ بچہ مارے جانے کی صورت میں سزائے موت کی تجویز ہے ‘اسی طرح زیادتی کے لئے چودہ سال قید کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے ‘اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ قانون سازی اور اس پرعملدر آمد اپنی جگہ ان واقعات کے تدارک کے لئے بھی کچھ کیاجاناچاہئے کہ نہیں اوریہی ان لوگوں کااصل امتحان ہے جو اس وقت ایسی پوزیشنوں پربراجمان ہیں کہ اگرچاہیں تو فعال کرداراداکر کے بہتری کے لئے پہل کرسکیں ‘کچھ لوگوں کو قدرت نے اضافی خوبیوں و صلاحیتوں سے نوازا ہوتاہے اوروہ پھران صلاحیتوں کو برموقع استعمال کرنے کاہنر بھی خوب جانتے ہیں ‘ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ اپنی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کاادراک نہ کرنا یا پھر ان کو موقع کی مناسبت سے استعمال نہ کرنا ہی بدترین کمزوری ہوتی ہے ‘ہمارے برادر عزیز قاضی جمیل الرحمان کاشمار بھی انہی لوگوںمیں کیاجاسکتاہے ‘گزشتہ دنوں کسی کام سے ایبٹ آباد جاناہوا تو پولیس سروس کے نیک نام افسر ڈی آئی جی ہزار ہ قاضی جمیل الرحمان کے ساتھ ان کے دفترمیں ایک مختصر سی نشست بھی ہوئی ‘اسی دوران باتوں باتوں میں انہوں نے یہ انکشاف کیاکہ ہزارہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے انسداد کے لئے جلد ایک آگہی اورشعوربیداری مہم شروع کی جارہی ہے ان کاکہناتھاکہ ایسے کیسوں میں پھر متاثرہ بچوں یا ان کے والدین کو ڈیل کرنابھی ناز ک کام ہوتاہے جوہرکوئی انجا م نہیں دے سکتااوراسی وجہ سے پھر آگے چل کرایسے کیسوں کے قانونی حوالوں سے پیچیدگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جس کافائدہ اکثرملزمان کوپہنچتاہے ‘اب پہلی بارایبٹ آباد میں تجرباتی بنیادوں پر ایسے کیسوں کی تفتیش کے لئے مستقل بنیادوں پر پولیس کے مختلف رینک کے اہلکاروں پرمشتمل ایک آٹھ رکنی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے جس میں دو ماہرین نفسیات بھی شامل ہونگے ‘یہ دس رکنی ٹیم ہی اب اس قسم کے کیسوں کو دیکھے گی جبکہ اسی کی روشنی میں پھر مستقبل کے لئے آگہی مہم چلانے کی غرض سے سفارشات بھی مرتب کرے گی ان کے مطابق ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے اس کاآغازکیاجارہاہے اور مثبت نتائج نکلنے کی صورت میں اس کو ہزارہ ڈویژن کے باقی تمام اضلاع تک بھی پھیلایاجائے گا ‘موجودہ حالات میں اس قسم کے اقدام کی ضرورت شدت سے محسو س کی جارہی تھی جیساکہ اوپر ہم نے ذکرکیاکہ اپنی صلاحیتوں کابروقت استعمال بھی ایک بہت بڑ ی صلاحیت ہوتی ہے تو ہمارے برادرعزیز قاضی جمیل الرحمان کو قدرت نے دیگرخوبیوں کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت سے بھی نوازرکھاہے اس سے قبل وہ شہدائے ڈیرہ اورشہدائے ملاکنڈ پولیس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دو کتابیں تحریرکرکے دیگر پولیس افسران کے لئے مثال قائم کرچکے ہیں اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی جدید خطوط پر تحقیقات ،متاثرہ خاندان کونفسیاتی دباﺅسے نکالنے اور مستقبل میں ایسے قبیح فعل کی بیخ کنی کے لئے آگہی مہم جیسے اقدامات کے ذریعہ وہ پھر ایک قدم آگے دکھائی دیتے ہیں‘درحقیقت اس قسم کے اقدامات کی اس وقت شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جارہی تھی اس میں تاخیر سے نجانے اورکتنی کلیاں مسلی جاتی رہیں گی امید رکھی جانی چاہئے کہ بچوں کے خلاف جرائم کے انسداد کے لئے ہزار ہ کامیاب مثال بن کرسامنے آئے گا جس کے بعد انہی خطوط پر پورے صوبہ میں ایک منظم مہم چلانے کی راہ ہموارہوسکے گی ۔