کیلی فورنیا کے رہائشی ترکھان لارن کرٹزر 2007 ءمیں ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوئے ‘ایک سال تک مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد54 سالہ کرٹزر کی ایک ٹانگ کاٹ لی گئی اسکی زندگی میں اندھیرے چھا گئے ‘ڈاکٹروں نے پیش گوئی کردی کہ وہ زیادہ سے زیادہ مزید پانچ سال زندہ رہ پائے گا ‘روزگار معذوری کی وجہ سے چھن گیا ‘سرکار کی طرف سے اسکو جو وظیفہ ملتا کرایوں اور بلوں کی ادائیگی کے بعد اس میں مہینے بھر کی ضروریات کیلئے اسکے پاس200ڈالر بچتے ‘کرٹزر کا برا وقت شروع ہوگیا تھا ‘غربت کی وجہ سے اس نے بچے دادا کے پاس بھجوا دیئے ‘اس کی اہلیہ لیزا اس کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتی مگر وہ ہمت ہارچکا تھا 2007کے بعد5سال اس نے کسمپرسی میں گزارے ‘رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی آنا جانا چھوڑ دیا تھا‘2012ءمیں ایک دن چھوٹے سے گھر میں ٹی وی دیکھتے ہوئے کرٹزر چینل بدل رہا تھا ایک چینل پر پرانی اشیاءکی نیلامی ہو رہی تھی اس نے دیکھا کہ ایک کمبل تقریباً 5لاکھ ڈالر میں فروخت ہوگیا اس کو لگا کہ شاید یہ کمبل اس نے کہیں دیکھا ہے ‘پھر یاد آیا کہ اس کو والدین کی طرف سے ایک کمبل ملا تھا مگر وہ اس حد تک بوسیدہ ہو چکا تھا کہ اس نے وہ سٹور میں کسی الماری میں پھینک دیا تھا کرٹزر نے پرانی اشیاءکی الماری میں اس جیسا کمبل ڈھونڈ نکالا ‘کمبل کا رنگ اس کا ڈیزائن‘ لکیریں سب کچھ اس کمبل جیسا تھا جو ٹی وی پر نیلامی میں5لاکھ ڈالر میں فروخت ہو چکا تھا کرٹزر نے والدہ کو فون کیا والدہ اس پر ہنس دی کہ اسے ان کو امیر بننے کے خواب آرہے ہیں اور جو کمبل اس کے پاس ہے وہ 5ڈالر میں بھی کوئی نہیں خریدے گا اس کی اہلیہ اور دیگر رشتہ داروں نے بھی اس کمبل کو معمولی اور بوسیدہ قرار دیا مگر کرٹزر اگلے ہی دن اس کو ایک کمپنی کے پاس لے گیا جو پرانی اشیاءکی نیلامی کرتی کمپنی نے اس کمبل کو نیلامی کے قابل قرار نہیں دیا وہ دوسری کمپنی گیا مگر وہاں بھی اس کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بالآخر وہ اسی کمپنی کے دفتر گیا جہاں پہلے کمبل کی نیلامی ہوئی تھی انہوں نے کمبل کو دیکھ کر کرٹزر کو امید دلائی کہ یقینا یہ کمبل 18ویں صدی سے تعلق رکھتا ہے اور چند دن بعد اس کو نیلامی میں ضرور رکھا جائیگا کمپنی کے ایک اہلکار نے بطور ایڈوانس اسکو 9ہزار ڈالر ادا کئے چنددن بعد نیلامی کے دن وہ ہال میں کمبل سمیت داخل ہوا اور جب باہر آیا تو وہ کروڑ پتی بن چکا تھا اس کا کمبل15لاکھ ڈالر یعنی تقریباً26 کروڑ روپے میں فروخت ہوگیا تھا ‘کرٹزر اور اس کی بیوی نیلامی کے دوران ہی ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر رو پڑے ‘اسکی زندگی بدل گئی تھی ‘اس نے دو خوبصورت گھر خریدے‘ جو گاڑی وہ کئی سال سے پسند آنے کے باوجود خرید نہیں پایا تھا اس نے وہ گاڑی خریدی بچوں کو واپس لاکر ان کو وہ تمام چیزیں لے دیں جن کے ان بچوں نے خواب دیکھے تھے چند ہفتے بعد آسائشیں اور سہولیات تو آگئیں لیکن ساتھ بے تحاشا مسائل بھی آنے لگے اس کی بہن نے نیلامی کی رقم سے حصے کا مطالبہ کردیا اور دھمکی دی کہ اس کو والدین کے کمبل کی رقم سے حصہ نہ ملا تو وہ عدالت چلی جائے گی اس کا ماہانہ وظیفہ بند ہوگیا اور گھر گاڑی اور دیگر آسائشوں پر بھاری بھر کم ٹیکس آنے لگے اس کے اخراجات روز بروز بڑھتے گئے اور آمدنی کوئی نہیں تھی‘2017ءمیں وہ ٹیکسوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے اس حد تک عاجز آگیا کہ اسکے اور اسکی بیوی نے ٹیکسوں اور مہنگائی کی وجہ سے کیلی فورنیا کی ریاست میں گھر اور دیگر چیزیں فروخت کرکے نسبتاً سستے علاقے اداھو منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا ‘کرٹزر سے جب کسی نے پوچھا تو اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا اس نے کہا کہ دولت آجانے کے بعد اسکے پاس گھر اچھی گاڑی اور کئی آسائشیں آگئیں مگر نہ تو اسکی کٹی ہوئی ٹانگ مل سکی نہ ہی وہ سکون جو غربت کے دنوں میں تھا ‘اسکے مطابق جن رشتہ داروں اور دوستوں نے غربت کے دنوں میں اسکے گھر آنا جانا چھوڑ دیا تھا ‘پیسہ آجانے کے بعد وہ روزانہ کی بنیاد پر اسکے ہاں نہ صرف آنا شروع ہوگئے بلکہ اس خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے خاندانی کمبل میں کئی لوگوں نے حصہ مانگنا شروع کردیا‘کرٹزر کے مطابق بڑے گھر خریدنے کے بعد اس کے سالانہ ٹیکس میں اس کی اچھی خاصی رقم چلی جاتی اوپر سے نہ صرف آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا بلکہ سرکاری کی جانب سے غریبوں کیلئے ماہانہ وظیفہ بھی بند ہوگیا تھا ‘کرٹزر آج بھی ٹریفک حادثے سے قبل کے دنوں کو یاد کرتا ہے اور لوگوں کو یہی ایک بات کرتا ہے کہ خوشی اور سکون سے غربت اور امیری کا کوئی تعلق نہیں۔