حسن اتفاق بھی اتفاقیہ نہیں ہوتا‘ اِس تناظر میں کیا اِسے محض اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) میں زیرالتوا یا زیرسماعت مقدمات کی اکثریت کا تعلق حزب اختلاف کی شخصیات سے ہے کیونکہ اِس وجہ سے نہ صرف احتساب کا عمل بلکہ انصاف کی فراہمی کرنے والے باقی ماندہ اداروں کو بھی تنقید کا سامنا ہے اور حکمراں جماعت کے لئے ہر دن نیا امتحان اور نیا محاذ لاتا ہے! لائق توجہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاست میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اوّل الذکر کی سیاست بیانات کے گرد نہیں گھومتی بلکہ وہ اپنی اچھی کارکردگی کے ذریعے مخالف ٹیم کو کلین بولڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے سمجھتے ہوئے تندوتیز تقاریر کی بجائے سوچے سمجھے جملوں کے ذریعے حکومتی جماعت کو اپنے عزائم اور مدعا قوم کے سامنے پیش کرنا چاہئے لیکن اگر فیصلہ ساز ہی احتساب کے عمل سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہوں اور اِس سے عام آدمی حزب ِاختلاف کے ہم زبان ہو کر احتساب کی جانبداری پر سوال اُٹھائے تو اُسے حق بجانب سمجھنا چاہئے۔ نیب نے ابھی پہلے سے دائر مقدمات کو انجام تک نہیں پہنچایا کہ نواز شریف سمیت نواز لیگ کے کئی رہنماو¿ں کے خلاف بدعنوانی کے تحت نئی تحقیقات کرنے کی منظوری دی ہے قوم کا متفقہ مطالبہ احتساب ہے جس کے امتیازی یا جانبدار ہونے کا تاثر نہیں جانا چاہئے۔ مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے مذکورہ مقدمات کا جلد فیصلہ بھی احتساب کے عمل کی ساکھ میں اضافہ کر سکتا ہے اور یقینا حکومت اِس ذمہ داری سے آگاہ اور اِس بارے میں سنجیدگی سے غوروخوض میں مصروف ہو گی۔احتساب کا عمل انصاف اور انصاف ایک ایسے عدالتی نظام سے مشروط ہے‘ جس کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں موجود شکوک و شبہات میں اضافہ نہیں بلکہ اِن میں کمی کی کوشش ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں تیئس اکتوبر کی شام سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کئے جانے کا دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جس میں ایک مقام پر لکھا ہے کہ اِس سے حکومت کی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی تاہم جو مقدمہ بنایا اُس میں پیش کئے گئے ثبوت و شواہد اور براہ راست صدراتی ریفرنس دائر کرنے کا منتخب طریقہ¿ کار قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے نہیں بڑھایا گیا۔اِس سلسلے میں صدارتی ریفرنس کو مسترد کئے جانے کی وجوہات کے ذکر پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں بہت ساری ایسی باتیں (راز) بھی پنہاں ہیں‘ جن کا بظاہر اِس مقدمے سے براہ راست تعلق نہیں بنتا مثلا کہا گیا ہے کہ ”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جائیداد کی تحقیقات کے لئے نہ تو صدر مملکت اور نہ ہی وزیراعظم سے اجازت لی گئی البتہ وزیر قانون کی اجازت سے اس بارے میں تحقیقات عمل میں لائی گئیں۔“ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدراتی ریفرنس میں حکومت جس انداز میں آگے بڑھی ہے اِس کا ایک وقت تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ججز قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتے اور اگر کسی جج کے اندرون و بیرون ملک اثاثہ جات اُس کی آمدن سے زیادہ ہیں تو اِس بات کا جواب دینا چاہئے لیکن جسٹس فائز عیسیٰ کے کیس میں جواب دینے کی بجائے حکومت کی خبر لی گئی ہے کہ اُنہوں نے ریفرنس دائر کرنے کے لئے قانونی و آئینی راستے کا انتخاب نہیں کیا حالانکہ قضیہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ درست طریقہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہئے ۔ تحریک انصاف پر اُنگلیاں اُٹھانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ کس طرح احتساب کے عمل‘ احتساب کے ادارے‘ عدالت عظمیٰ اور وفاقی حکومت کی ساکھ متاثر کرکے پاکستان کو اُس بند گلی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں عدل و انصاف کی نہیں بلکہ امتیازات کی حکمرانی ہوگی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے جس دس رکنی بینچ نے اُنیس جون دوہزار بیس کو جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کے بارے میں مختصر فیصلہ سنایا تھا‘ اُس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بھی ایک الگ رخ پیش کیا ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ یہاں اتفاقیہ غلطیاں کسی سے بھی سرزد ہوسکتی ہیں اور یہ کوئی جرم بھی نہیں۔