اُمید پر دنیا قائم ہے۔ پشاور کے ’چیف ٹریفک آفیسر عباس مجید مروت تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے‘ جنہوں نے ”ٹریفک پولیس اِہلکاروں‘ ‘کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ”پہلے سلام اورپھر کلام‘ ‘کریں۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے ”خوش اِخلاقی“ کی مہمات اِس سے قبل بھی سننے میں آئیں لیکن ضرورت یہ ہے کہ اِن ہدایات پر عمل دیکھنے میں بھی آئے اور ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو ”اِنسان“ سمجھتے ہوئے اُن سے ڈیوٹی لی جائے۔ 12سے 14 اور سولہ گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے والے پولیس اہلکار اپنے چہروں پر مسکراہٹ کہاں سے لائیں جبکہ مسلسل ڈیوٹی دینے سے اُن کے اِعصاب شل ہو چکے ہیں‘ اِس مرحلہ فکر پر اہل پشاور کو بھی توجہ دینی چاہئے کہ جب خوشی یا غم کے تہواروں کے موقع پر اُنہیں ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں بھی احترام کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور یہ کلیہ (پہلا سلام پھر کلام) صرف ٹریفک اہلکاروں ہی کے لئے مخصوص و محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ وہ پہلے سلام اور پھر کلام کرے۔ بنیادی خامی‘ کمی اور کمزوری ”تربیت کے فقدان“ کی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک (مغربی معاشروں) کے ہاں ہر چھوٹی بڑی بات پر ’شکریہ (تھینک یو)‘ اور ’معافی چاہتا ہو (ایکسکیوز می)‘ کا کلمہ سننے کو ملتا ہے۔ جہاں اجنبی ہوں یا جاننے والے‘ اکثریت ایک دوسرے سے بات کرنے سے پہلے مو¿دبانہ انداز اختیار کرتی ہے کیونکہ یہ اخلاقی بات اگرچہ اُن کے ہاں نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں لیکن وہاں کے تعلیمی اداروں سے لیکر گھروں کے ماحول تک ”سماجی آداب“ پھیلے دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے ہوں یا دوسروں کے بچے‘ کوئی بھی شخص بچوں کے سامنے نہ تو اُونچی آواز میںبات (چیخ و پکار) کرتا ہے اور نہ ہی بچوں کی موجودگی میں ایسے الفاظ کا استعمال کیاجاتا ہے‘ جن سے بچوں کے لہجے اور سوچ کرخت ہو۔ سماجی تربیت میں صرف بڑے ہی نہیں بلکہ بچے بھی شریک ہوں تو اِس سے اُبھرنے والی اجتماعی خیرخواہی بصورت حساسیت و سماجیت سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اگر کہیں بچوں کی موجودگی کو محسوس نہ کیا جا رہا ہو اور بچوں کو احترام نہ بھی دیا جا رہا ہو تو پولیس طلب کر لی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں صورتحال اُلٹ ہے اور ہم اِس بات کو فخر سمجھتے ہیں کہ بچوں اور عورتوں کے سامنے اپنے غصے اور جذبات کا مظاہرہ کریں جو درحقیقت بدتمیزی کے زمرے میں آتی ہے اور صرف یہی نہیں کہ اکثر ”سرعام بدتمیزی“ دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ دوسروں کو ایسا کرتے دیکھ کر ہم لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ دونوں رویئے مثبت سوچ کے عکاس نہیں۔ کسی گاڑی یا سواری میں بڑوں کے ہمراہ بیٹھے بچے اور خواتین جب عملاً اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن کے والدین یا بڑے بوڑھے پولیس اہلکاروں سے ’پہلے سلام اور پھر کلام‘ کر رہے ہیں تو وہ بھی عملی زندگی میں ایسا ہی کریں گے۔ ٹریفک پولیس سربراہ نے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور اُن سے مو¿دبانہ عرض ہے کہ اخلاقی تربیت اور تہذیب کے اسباق کسی ایک فریق کی کوششوں سے ازبر نہیں ہوں گے کیونکہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔جوانسال مروت قبل ازیں سال 2016ءمیں پشاور کے ’ایس ایس آپریشنز‘ جیسے اہم عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں جبکہ نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد روایتی طور پر ’ٹریفک پولیس کے صدر دفتر میں دربار سے خطاب کیا اور شاید روایتی ہی کے طور پر پشاور سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے مہم ’از سر نو‘ شروع کرنے کا بھی حکم دیا اور تجاوزات ہی پشاور کے مسائل کی ”بنیادی وجہ“ ہے۔ خوش اخلاقی کے مظاہرے کے بعد ٹریفک روانی بحال رکھنے کے لئے تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے لیکن شاید یہ بات اُن کے علم میں نہیں کہ اِس قسم کی مہمات ہر چند ہفتوں بعد شروع کی جاتی ہیں اور اِس کے لئے پشاور کے چاروں ٹاو¿نز میں نہ صرف خصوصی دستے موجود ہیں بلکہ ’اَحیائے پشاور‘ کے نام سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے دی گئی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ پشاور سے تجاوزات ختم کی جائیں۔ اُمید تھی کہ اِس سلسلے میں گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر کو تجاوزات سے پاک کر کے بطور مثال پیش کیا جائے گا لیکن تجاوزات سے مچھلی منڈی تک کچھ بھی دیکھنے لائق نہیں۔ مذکورہ ثقافتی راہداری ’ون وے‘ قرار دی گئی تھی یعنی یہ ’یک طرفہ آمدورفت‘ کے لئے مخصوص ہو گی تو کیا ٹریفک پولیس کے سربراہ ’ٹیسٹ کیس‘ سمجھتے ہوئے پورے پشاور کو نہ سہی صرف اور صرف ثقافتی راہداری اور اِس سے جڑے علاقوںکو مرکزی بازاروں کو تجاوزات سے پاک کر سکتے ہیں؟ ون وے ٹریفک کا احترام‘ اندرون پشاور کے لئے ٹریفک سگنلز اور پشاور شہر کے لئے خصوصی ٹریفک پولیس دستے کی تشکیل بھی ضروری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گورگٹھڑی (ایک مربع کلومیٹر پر محیط پشاور کی سرتاج تاریخی و ثقافتی عمارت) کے اردگرد (یونین کونسل گنج اور یونین کونسل کریم پورہ کی حدود میں) تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ”پشاور کی کہانی“ تجاوزات سے شروع اور تجاوزات پر ختم ہوتی ہے۔ عباس مجید مروت بھی پشاور کے مقامی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے سامنے پشاور کا درخشاں ماضی نہیں کہ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اِسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن یہاں کے باغات اور شاہراہیں قبضہ ہو رہی ہیں۔ اِس پورے عمل میں متعلقہ بلدیاتی اداروں کے اہلکار‘ تھانہ جات اور ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز بھی شریک جرم ہیں۔ اُمید ہے کہ تجاوزات ختم کرنے کے لئے پرعزم ’عباس مجید مروت‘ ماضی کے ٹریفک پولیس سربراہوں سے قطعی مختلف ثابت ہوں گے اور اِن کا نام پشاور کی تاریخ میں ’سنہرے حروف‘ سے لکھا جائے گا اگر اِنہوں نے ”پشاور سے وفا“ کی‘ تو اِن کی خدمات کا دائمی اعتراف اُن سبھی سول اعزازات پر بھاری ثابت ہوگا‘ جو یہ اب تک وصول کر چکے ہیں یا کریں گے۔