فضائی آلودگی کی ایک قسم کو اصطلاحاً ’سموگ (Smog)‘ کہا جاتا ہے جو انگریزی زبان ہی کے دو الفاظ سموک (دھواں) اور فوگ (دھند) کا مجموعہ ہیں۔ دراصل ’سموگ کا موسم (سیزن)‘ سردیوں کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور جب زمین پر پیدا ہونے والا دھواں چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہو‘ ہوا سے ہلکا ہونے کے باوجود بھی گرمیوں کی طرح فضا میں بلند نہیں ہوتا اور یوں دھند کے ساتھ مل کر ایسے گاڑھے (کثیف) بخارات پیدا کرتا ہے جو فضائی (ماحولیاتی) آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی میدانی علاقوں میں اکتوبر کے آغاز سے فصلوں کی باقیات جلانے کا عمل شروع ہوتا ہے‘ جو دوسری فصل کے لئے زمین کی تیاری کا آسان اور سستا عمل ہے۔ کاشتکار پہلے کی فصلوں کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں جس سے اُٹھنے والا دھواں دھند کے ساتھ مل کر نہ صرف اُس دیہی علاقے بلکہ قریبی شہری علاقوں (کئی سو کلومیٹرز) میں پھیل جاتا ہے۔ ’سموگ‘ کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں میں بصارت اور تنفس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں لیکن اِس سال زیادہ بڑی مشکل ’کورونا وبا‘ ہے جس کے پھیلنے کے لئے دھند اور سردی دونوں ہی موزوں ہیں۔ شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ جلانے کی وجہ سے ’سموگ‘ بنتا ہے اور اِس سے ہر قسم کے جانداروں کو سانس لینے اور بصارت سے جڑی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں جہاں سردی کا موسم میدانی علاقوں کی نسبت اکتوبر کے آغاز ہی سے شروع ہو جاتا ہے وہاں کے رہنے والوںکو ’سموگ‘ سے بچنے کے لئے خصوصی احتیاط کرنی چاہئے۔ اُن تمام شہری اور دیہی علاقوں میں جہاں ’کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی)‘ تلف کرنے کا واحد طریقہ اِسے نذر آتش کرنا ہے‘ اُنہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ کوڑا کرکٹ میں پلاسٹک اور کیمیائی مادوں سے بنے میٹریل کی آمیزش ہوتی ہے اور اِنہیں کھلی فضا میں جلانے سے بڑی مقدار میں مضر صحت گیسیں خارج ہوتی ہیں جو فضا میں اُوپر اُٹھنے کی بجائے آس پاس کے ماحول ہی میں بھٹکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ لوگ جو کوڑا کرکٹ جلاتے ہیں وہ خود ہی اِن گیسیوں میں سانس لینے کے باعث اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اِس لمحہ¿ فکریہ پر ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہے کہ وہ اگر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور تلف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم سے کم ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کی خواندگی اور شعور میں اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سردیوں کے موسم میں کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات نذر آتش کرنے سے گریز کریں کیونکہ اِس میں اُن کی اپنی اور دیگر ’ہم زمین جانداروں‘ کی سلامتی مضمر ہے۔پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بھارت کی مثال بطور خاص مطالعہ کرنی چاہئے‘ جس میں چھبیس اکتوبر کے روز وفاقی حکومت نے عدالت عظمی (سپریم کورٹ) کو اِس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ ”فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے جلد قانون سازی متعارف کروائی جائے گی۔“ بھارت میں ہونے والی مذکورہ اور مجوزہ قانون سازی کا تعلق فصلوں کی باقیات جلانے سے متعلق ہے جس میں تعاون نہ کرنے والے کاشتکاروں سے نمٹا جائے گا لیکن ’سموگ‘ کا مسئلہ صرف زراعت ہی سے نہیں بلکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی موسم سرما کے دوران ’سموگ‘ کا باعث بنتا ہے۔ اصولی طور پر تحفظ ماحولیات کی کوششوں کو سال کے مختلف موسموں کے لحاظ سے تقسیم کر کے الگ الگ حکمت عملیاں وضع کرنی چاہیئں کیونکہ اگر شہری و دیہی علاقوں کے رہنے والوں کو تین سے چار ماہ ’سموگ کے دکھ‘ برداشت کرنے پڑتے ہیں تو باقی ماندہ چھ سے آٹھ ماہ کے دوران دیگر عوامل زمینی و فضائی آلودگی کی سطح کو اِس حد تک بلند کرتے ہیں کہ اِن کی وجہ سے ہر جاندار چیز متاثر ہوتی ہے۔ آج بھی پاکستان کے ایسے حصے ہیں جہاں روزمرہ استعمال کے ایندھن کے طور پر ’لکڑی اُور کوئلے‘ کا استعمال کیا جاتا ہے اور جب تک مذکورہ علاقوں میں ”ماحول دوست ایندھن“ کی فراہمی اور ایندھن کے محفوظ استعمال کے بارے خواندگی میں اضافہ نہیں ہوتا اُس وقت تک ماحول دوستی کے دعوے اور وعدے کھوکھلے ہی رہیں گے۔خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کا مطالعہ کرنا چاہئے جہاں مضافاتی میدانی دیہی علاقوں میں موسمیاتی درجہ حرارت میں مسلسل کمی کے ساتھ ’سموگ‘ اِس قدر وسیع علاقے میں بڑے پیمانے پر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ لاہور کی فضا میں آلودگی کی مقدار (انڈیکس) کو ’غیر صحت بخش‘ قرار دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ برس اِسی قسم کے حالات کی وجہ سے تعلیمی اداروں‘ تجارتی مراکز اور دفاتر کو بند کرنا پڑا تھا۔ سموگ سے زیادہ پریشان کن بات ہمارے فیصلہ سازوں کے رویئے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کو خطرہ نہیں سمجھتے۔ موسم سرما میں چاول کی فصل کی باقیات جلائی جاتی ہیں جبکہ اینٹیں بنانے والی صنعت (بھٹہ خشت) ہر چھوٹے بڑے شہر کے اطراف میں قائم ہیں‘ جن سے اُٹھنے والا دھواں رواں ہفتے سے آئندہ ماہ کے دوسرے ہفتے (دس سے بارہ نومبر) تک اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست بنانے کے لئے ’زگ زیگ‘ نامی ایک طریقہ¿ کار نہ صرف متعارف کروایا گیا ہے‘ بلکہ اِس پر سختی سے عمل درآمد کےلئے پنجاب حکومت نے بھٹہ خشت صنعتوں کو ’اکتیس دسمبر‘ تک کی حتمی تاریخ (ڈیڈ لائن) دے رکھی ہے جس کے بعد صرف اُنہی بھٹہ خشت صنعتوں کو کام کرنے کی اجازت ہوگی جنہوں نے ’زگ زیگ ٹیکنالوجی‘ اختیار کر رکھی ہو۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ایک ہی ملک میں ہوتے ہوئے بھی ماحول دوستی اور تحفظ ماحول کی کوششیں یکساں پیمانے پر آگے نہیں بڑھ رہیں۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی اگر خیبرپختونخوا میں بھی موجود ہے لیکن اِس پر عمل درآمد میں خاطرخواہ سختی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ماحولیاتی آلودگی سے صوبائی دارالحکومت پشاور کو بطور خاص خطرہ ہے کیونکہ اِس شہر کے اطراف میں سینکڑوں کی تعداد میں اینٹیں اور برتن بنانے والی بھٹیاں قائم ہیں‘ جن کی چلمنیوں سے اگلنے (خارج ہونے) والا ’زہریلا دھواں‘ پشاور کی فضائی آلودگی میں اضافے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ دیکھا جائے تو آلودگی میں اضافے سے جتنے مسائل جنم لے رہے ہیں اس میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس ضمن میں کئے گئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں سموگ بننے کا عمل بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا نتیجہ ہے جس سے چھٹکارا پانے کے لئے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے اور جس قدر اس میں تاخیر ہوتی جائے گی اسی طرح اس میں شدت آئے گی اور اس کے مضر اثرات میں اضافہ ہوگا اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی کو تمام شعبہ ہائے زندگی خاص کرخشت سازی اور صنعتوں میں بروئے کار لانا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ فصلوں کی جڑوں کو تلف کرنے کے لئے جلائے جانے کے عمل کی بھی حوصلہ شکنی ضروری ہے جس سے ماحول میں مضر صحت دھواں بھرتا جاتا ہے اور یہی عوامل ہے جو سموگ کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ پہلے کہا گیا اس حوالے سے دیگر ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے اور اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔