فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو منی لانڈرنگ کی گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد پاکستان کی معاشی معاملات کی شفافیت پر بدستور نظر رکھی جائے گی۔پاکستان جون 2018سے کالا دھن رکھنے والے ممالک کی اس لسٹ میں براجمان ہے لیکن خوش آئند امر یہ کہ حکومت کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کرنے پر کام بھی کیا جا رہا ہے جس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلیر نے تنظیم کے حالیہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کیا، مارکوس پلیر نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27مطالبات میں 21مطالبات پر کام کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور پاکستان کوبقیہ 6نکات پر بھی کام کرنا ہوگا۔ بقیہ 6مطالبات پر کام کرنے کےلئے پاکستان کو فروری 2021تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔پاکستان سال 2008سے سال 2020تک تسلسل کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہتا چلا آیا ہے۔ پہلی بار اس گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان نے سال 2010میں FATFکے مطالبات پر کام کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن اس معاملے میں سست روی سے کام لیا گیا۔لیکن بالآخر 2014میں پاکستان کی کاردگی کو تسلی بخش مانا گیا اور 2015میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔لیکن دوسری جانب ایف اے ٹی ایف جوکہ ایک ایسی تنظیم ہے جو مسلسل ملکوں کے معاشی شفافیت کے معاملات کا جائزہ لیتی رہتی ہے لہٰذا اس عمل کے دوران پاکستان کو جون 2018میں ایک مرتبہ پھروائٹ سے گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ ایف اے ایف ٹی کی بنیادی تشویش یہ تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام اور دہشت گردوں کی اثاثے ضبط کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ کروانے کےلئے بھرپورکوشش شروع کردیں جس میں تاحال اسے کامیابی تو نہیں مل سکی لیکن اُس نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ بھارت کی ایف اے ٹی ایف کی ایک ذیلی تنظیم اے پی جی یعنی ایشین پیسفک گروپ میں اچھی خاصی پوزیشن ہے، اور اس تنظیم میں اپنی مضبوط پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے بھارت پاکستان کی مشکلات بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس دوران جہاں بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی کوششوں میں لگا رہا وہاں چین، ترکی اور ملائشیا نے پاکستان کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔واضح رہے کہ چین نے جہاں پاکستان کی مد کی وہاں پاکستان پر دباﺅ بھی ڈالا کہ FATFکے مطالبات پر سنجیدگی سے عمل کرے اور یہ تمام مطالبات پورے کرے۔پاکستان کی موجودہ حکومت نے FATFکے مطالبات کی روشنی میں قانون سازی کا فیصلہ کیا تو اس دوران اسے شدید کا سامنا کرنا پڑا، اس عمل کی شروعات میں کئی قانونی بِل آسانی سے پاس کرائے گئے لیکن ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی سے وابستہ دو ترمیمی بِل اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ میں ناکام بنادئیے، پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ میں اس کی واضح مخالفت کی جس کے ردِ عمل میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اپویشن پر ایک بار پھر الزام لگایا کہ اپوزیشن اس قانون سازی کو روک کر اپنی منی لانڈرنگ کو بچانا چاہتی ہے، سینیٹ میں اس قانون کی سازی کی مخالفت کو ہندوستانی میڈیا میں خوب پذیرائی ملی اور انڈیا پروپیگنڈہ کیا جانے لگا پاکستان جلد ہی گرے سے بلیک لسٹ میں چلا جائے گا۔لیکن پاکستان کی حکومت نے واضح اعلا ن کیا کہ وہ FATFکی گرے لسٹ سے نکلنے کے درکار قانون سازی ہر صورت پاس کرا ئی جائے گی، جلد ہی حکومت نے اپنے دعوے کو سچ ثابت کیا اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بُلا کر اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ میں مسترد کردہ قوانین کو واضح اکثریت سے پاس کروالیا۔ اس قانون سازی کے بعد پاکستان کی حکومت کو اُمید تھی کہ فنانشل ٹاسک فورس اکتوبر 2020میں پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہو کر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کردے گا۔یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستان کی اِس اُمید کی وجہ کیا تھی جبکہ پاکستان کو معلوم تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی یف کے 27میں سے 21مطالبات پر پورا کیا ہے جبکہ 6بدستور اپنی جگہ پر قائم ہیں؟۔شاید کہ پاکستان کو اُمید تھی کہ افغانستان کے قیامِ امن کے عمل میں پاکستان کے کردار کو پوری دنیا باالخصوص امریکہ کی جانب سے جس قدر سراہا جا رہا ہے اس کا فائدہ FATFمیں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں ہوگا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ امریکہ پاکستان کو گرے سے وائٹ لسٹ میں جانے میں مدد کرے گا، لیکن دُنیا بدل چکی ہے اور اب دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہ چلنے میں کوئی بھی ملک کسی بھی ملک کا نہ تو زیادہ دیر تک حمایتی رہ سکتا ہے اور نہ ہی ایک خاص حد سے زیادہ اس کی مدد کی جاسکتی ہے، تاہم جس تیزی ور مستعدی سے حکومت نے 21نکات پر مطلوبہ ہدف حاصل کیا اور باقی ماندہ نکات پر بھی جلد ہی کام کی تکمیل سے یہ مرحلہ بھی سر ہو جائے گا اور بھارت جو کہ بے بنیاد پروپیگنڈہ کے ذریعے پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنا چاہتا ہے کو ماضی کی طرح ناکامی کاسامنا کرنا پڑیگا اور پاکستان کے وائٹ لسٹ میں جانے سے یہ باب ہمیشہ کیلئے بند ہو جائےگا۔