ممنوعہ علاقہ جات

سرکاری تعلیمی اِداروں کے مالی و انتظامی امور اور کارکردگی بہتر بنانے کےلئے ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے اصلاحاتی عمل (کوشش) 2013ءسے جاری ہے لیکن اِس دورانیے میں صوبائی حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے احکامات احتساب کے اُس عمل کو بے معنی بنائے ہوئے ہے‘ جس کا تعلق محکمہ¿ تعلیم کے تدریسی و غیرتدریسی ملازمین سے ہے اور جس کے لاگو ہونے سے ’سزا¿ و جزا¿‘ پر مبنی نظام لاگو ہو سکتا ہے۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر اصلاحات ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اصلاحاتی نظام کی مخالفت کرنے والوں کا مو¿قف ہے کہ محکمہ¿ تعلیم کو ”تجربہ گاہ“ نہ سمجھا جائے اور جس طرح دیگر سرکاری محکموں کے مالی و انتظامی امور کی نگرانی اور دیکھ بھال کا نظام موجود ہے اُسی کی بنیاد پر (ماضی کی طرح) معاملات جوں کے توں برقرار رہنے چاہئیں جبکہ سخت گیر نظم و ضبط کی ضرورت زیادہ بڑی ہے اور چاہے کتنی ہی مخالفت ہو لیکن تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے آغاز ’سزا¿ و جزا¿‘ ہی سے ہونا چاہئے جسے وسعت دیئے بغیر سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ممکن نہیں۔ بنیادی سوال (اختلافی نکتہ¿ نظر) یہ ہے کہ جب ہر دور حکومت میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مقصدیت و افادیت میں اضافے کےلئے کوششیں کی جاتی ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ نجی تعلیمی اِداروں کے مقابلے سرکاری تعلیمی اِداروں کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ رہی۔ اِس پہیلی اور معمے کو ایک مثال کے ذریعے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ رواں ہفتے محکمہ¿ ابتدائی و ثانوی تعلیم نے ایک دفتری حکمنامہ جاری کیا جس کے مطابق افسروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ازخود اور اچانک سرکاری سکولوں کا معائنہ نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے کےلئے اُنہیں متعلقہ حکام سے پیشگی اجازت لینا ہوگی۔ جہاں کچھ بھی چھپانے کےلئے نہ ہو وہاں رازداری نہیں ہوتی اور صوبائی حکومت کو محکمے کی خراب کارکردگی کی پردہ پوشی کرنے کی بجائے یہ حکم جاری کرنا چاہئے تھا کہ صرف متعلقہ سرکاری اہلکار ہی نہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندے بھی اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے جس سرکاری سکول کالج یا یونیورسٹی کا معائنہ کرنا چاہئیں اُنہیں کسی سے ”پیشگی اجازت“ لینے کی ضرورت نہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ جب کوئی سرکاری اَفسر متعلقہ ’ڈسٹرکٹ اِیجوکیشن آفیسر (ڈی اِی او)‘ سے اجازت لیکر کسی سکول کا معائنہ کرے گا تو پھر اُس معائنے کی ضرورت ہی کیا رہے گی۔ موبائل فون اور واٹس ایپ جیسے برق رفتار مواصلاتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پورے محکمے کو مذکورہ دورے سے مطلع کر دیا جائے گا۔ مذکورہ حکمنامے کے تحت ماتحت ضلعی عملے کے ماتحت عملہ (ایس ڈی ای اوز) بھی سرکاری سکولوں کے معائنے سے متعلق اپنے شیڈول ارسال کریں گے اور اپنے دورے کی وجوہات بھی بیان کریں گے کہ وہ کس وجہ سے کسی سکول کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں!“ یہ حکمنامہ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں دم توڑ چکی ہے اور باقی جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے وہ سب روایتی اور کاغذی کاروائیوں سے زیادہ نہیں۔خیبرپختونخوا حکومت کے تمام ملازمین میں سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں اِن اساتذہ کی کارکردگی بچوں کے امتحانی نتائج کی صورت سب کے سامنے ہے۔ باقی رہی سہی کسر سکولوں کے مالی و انتظامی معاملات کی رہ جاتی ہے تو اُس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ ایسا بنا اجازت اور بنا وجوہات بتائے نہیں کیا جائے گا۔ تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ ساز اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اِس طرح تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے تو یہ بھول اور غلطی کی اصلاح غلطی سے کرنے کی سعی ہے! اُمید اور مطالبہ ہے کہ سرکاری سکولوں کو معائنہ کاروں کے لئے ’ممنوعہ علاقہ جات (نو گو اِیریاز)‘ قرار دینے کی بجائے اِن کی معائنہ کاری کے عمل کو زیادہ وسیع‘ زیادہ شفاف اور زیادہ جوابدہ بنایا جائے۔ عام آدمی (ہم عوام) کے لئے تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کرنے جیسے ظلم کے بعد اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی نگرانی بھی مشروط یعنی معنوی لحاظ سے محدود کر دی جائے گی تو اِس سے بہتری کی بجائے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اِس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے فیصلہ سازوں کے پاس بطور جواز چند ایسی مثالیں (تحریری شکایات) موجود ہیں جن میں ’اچانک معائنہ کاروں‘ اور مرد و خواتین اساتذہ و معاون عملے کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور کچھ شکایات ایسی بھی سامنے آئیں جن میں منتظمین نے توجہ دلائی کہ خواتین کو اچانک معائنے سے استثنیٰ دیا جائے اور معائنہ کار پہلے سے اپنا مقصد بیان کریں تاکہ اُنہیں حسب تسلی و تشفی جواب دیتے ہوئے مطمئن کیا جا سکے۔ اِس سلسلے میں پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ اگر کہیں ایسی بدنما مثال موجود بھی ہے کہ جہاں معائنہ کار یا معائنہ کاروں نے اپنے اختیارات اور حیثیت کا غلط استعمال کیا تو ایسے افراد کے خلاف محکمانہ کاروائی کیوں نہیں کی گئی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ معائنہ کاری کے قواعد و اصول موجود ہیں‘ جن پر نظرثانی کی اگرچہ ضرورت نہیں لیکن شک و شبے کی گنجائش کو ختم کرنے کے لئے شق وار جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں اساتذہ سے تجاویز بھی طلب کی جا سکتی ہیں لیکن طلبا و طالبات کے سرکاری سکولوں کے ”اچانک اور غیرمشروط معائنے“ کا اِختیار بحال رہنا چاہئے۔