چیف جسٹس آف پاکستان نے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ قانون بنانے والوں کے اختیار میں مداخلت نہیں کرے گی۔ صوبائی قوانین کو آئین کے تناظر میں پرکھنا ہائی کورٹس کا کام ہے۔ہم تمام صوبوں کو سنے بغیر ایسا فیصلہ کیسے دے دیں جس کا اطلاق پورے ملک میں ہونا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں کہ وہ دیکھے کس سیاسی جماعت کو کتنے ووٹ ملے،ہمارا کام سیاسی جماعتوں کے ووٹ گننا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پوری دنیا میں بلدیاتی حکومتوں کے ذریعے عوام کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ ملک بھر کے بلدیاتی اداروں سے متعلق گائیڈ لائنز دے گی۔چاروں صوبوں میں بلدیاتی ادارے اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوچکے ہیں ، میٹروپولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن، ٹاﺅن کونسل، ضلع کونسل، تحصیل کونسل، نیبر ہڈ اور ویلج کونسلوں کی زیر نگرانی جاری اور نئے ترقیاتی منصوبے منتخب اداروں کی غیر موجودگی کے باعث ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔آئینی تقاضا یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے کے تین ماہ کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ نچلی سطح پر عوام کے منتخب نمائندے گلیوں کی پختگی، نہروں اورنالیوں کی صفائی،کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے، پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی،حفاظتی پشتوں کی تعمیرسمیت عوام کو درپیش چھوٹے چھوٹے مسائل دیہی اور مقامی سطح پر حل کرسکیں۔ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کے اہلکار منتخب اداروں کے معاون اور مددگار ہوتے ہیں وہ منتخب اداروں کے متبادل نہیں ہوسکتے۔دنیا کے تمام جمہوری اور غیر جمہوری ممالک میں نچلی سطح پر عوام کے مسائل بلدیاتی ادارے کے ذریعے ہی حل کئے جاتے ہیں لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں منتخب جمہوری حکومتوں نے کبھی بلدیاتی اداروں کی سرپرستی نہیں کی۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد وفاقی حکومت نے بہت سے محکمے صوبائی حکومتوں کے حوالے توکردیئے مگر ان کے اثاثے ابھی تک صوبوں کو منتقل نہیں کئے گئے۔ اسی طرح صوبے بھی اپنے اختیارات اور وسائل بلدیاتی اداروں کے ساتھ شیئر کرنے کے روادار نہیں ہیں۔خیبر پختونخوا حکومت کو الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لئے ٹائم فریم دینے کا بار ہا نوٹس دیا ہے مگر ہر بارحلقہ بندیاں مکمل نہ ہونے کے بہانے مزید مہلت کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ صوبے کے 26پرانے اضلاع میں ضلع، تحصیل، ٹاﺅن ، ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کی حلقہ بندیاں پہلے سے موجود ہیں۔تاہم صوبائی حکومت ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں ایک ساتھ بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ وہاں تعلیم، صحت، آبپاشی اور آبنوشی سمیت دیگر سرکاری اداروں کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ صوبے میں ضم ہونے کے بعد وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج کی طرف سے قبائلی علاقوں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات شروع کئے گئے ہیں سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں موجود قبائلیوں کے نمائندے بھی ان علاقوں کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں حکومت نے قبائلی علاقوں کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے سو ارب روپے کے خصوصی پیکج کا عندیہ بھی دیا ہے۔ ترقیاتی فنڈکو عوامی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کے لئے نچلی سطح پر عوام کی نمائندگی ضروری ہے جس کے لئے بلدیاتی اداروں کا قیام ناگزیر ہے۔