تلخ حقیقت

پیشرفت لائق توجہ ہے۔ خیبر پختونخوا قانون ساز اسمبلی کے اَراکین کو محکمہ¿ پولیس کی کارکردگی سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ پورے صوبے میں (مو¿ثر پولیسنگ کے ذریعے) عوام کی خدمات تک رسائی (عملاً) ممکن بنا دی گئی ہے“ اور یہ”محکمہ¿ پولیس نے ”بروقت اِنصاف کی فراہمی یقینی بنا دی ہے۔ سوال تو بنتا تھا کہ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کا وہ کونسا ضلع یا گاو¿ں یا علاقہ ہے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت کو یقین ہو کہ بوقت ضرورت (خدانخواستہ) پولیس مظلوم کے شانہ بشانہکھڑی ہوگی؟ مظلوم کی داد رسی کی جائے گی اور قانون کی حکمرانی سے انصاف کی فراہمی تک کے مراحل میں حکومتی ادارے اِمتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کریں گے! قانون کا اِطلاق یکساں ہوگا اور قانون کی حمایت مالی حیثیت یا سیاسی اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کا یہ کہنا کہ پینتیس ہزار سے زیادہ عوامی شکایات اور نو لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ درخواستوں پر عوام کو ریلیف پہنچایا گیا اپنی جگہ ’حیرت انگیز‘ ہے اور جس انداز میں قریب دس لاکھ شکایات نمٹائی گئیں ہیں اور حقیقت میں ایسا ہی کیا گیا ہے تو پھر خیبرپختونخوا پولیس کا نام تو ’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں درج ہونا چاہئے۔ شاید ہی دنیا کی کسی بھی دوسری پولیس فورس نے اِس قدربڑی تعداد میں عوامی شکایات نمٹائی ہوں ۔ کیا آج کا تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے؟ کیا عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے پولیس فورس‘ بوقت ضرورت‘ اُس کے کام آئے گی؟خیبرپختونخوا پولیس نے دس ہزار سات سو سے زیادہ منشیات فروش پکڑے ہیں تو پھر جگہ جگہ منشیات کے اڈوں کو سپلائی کہاں سے ہو رہی ہے یہ سوال یقینا ذہنوں میں اٹھتے ہیں۔ درحقیقت خیبرپختونخوا میں منشیات فروشی کی صورتحال اِس حد تک خطرناک اور بگڑی ہوئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور شہر کی مرکزی شاہراہ جی ٹی روڈ پر اُوور ہیڈ پل کے نیچے منشیات فروشوں اور منشیات استعمال کرنے والوں کے جھنڈ دکھائی دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پولیس اصلاحات کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (داخلی احتساب ’انٹرنل اکاﺅنٹبلیٹی‘) سلمان چوہدری کی جانب سے خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کے میدان (فلور) پر اراکین کو محکمہ پولیس میں متعارف شدہ اصلاحات‘ دہشت گردی اور دیگر جرائم کے خلاف اقدامات‘ درپیش چیلنجوں اور اِن سے نمٹنے کی حکمت عملی نیز مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق جو معلومات (تفصیلات) فراہم کی گئیں اُن میں ایک مرحلے پر تمہیداً پولیس اصلاحات کے مقاصد بھی بیان کئے گئے جن میں شامل تھا کہ خدمت کے معیار پر پورا اُترنے کے لئے پولیس کو خودمختار اور جوابدہ بنایا گیا ہے حالانکہ نہ تو مکمل خودمختاری حاصل ہوئی ہے اور نہ ہی پولیس جوابدہ ہے۔ تحریک انصاف حکومت میں اگر کوئی ایک تبدیلی بطور مثال و اصلاح پیش کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ پولیس فورس میں اہلیت (میرٹ) پر بھرتیاں ہوتی ہیں اور اِس مقصد کے لئے ’ٹیسٹنگ اِیجنسی‘ کی خدمات سے استفادہ ہو رہا ہے تاہم بھرتی کے بعد پوسٹنگز اور اہم عہدوں پر تعیناتیاں خاطرخواہ شفاف نہیں اور بظاہر دکھائی نہ دینے والی سیاسی مداخلت کہیں نہ کہیں کارفرما ہے! پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’اراکین صوبائی اسمبلی‘ نے مذکورہ بریفنگ میںگہری دلچسپی لی اور محکمہ پولیس کو اپنی ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا‘اراکین اسمبلی کی جانب سے ’کلین چٹ‘ ملنے سے یقینا پولیس کے صوبائی فیصلہ سازوں کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے لیکن بنیادی نکتہ تو عوام ہیں‘ جن کے اطمینان اور اعتماد کی بحالی کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ستائیس اَکتوبر کو دیرکالونی میں ہوئے دہشت گرد حملے کے اگلے روز (اٹھائیس اَکتوبر) ملحقہ علاقوں میں چند گھروں کی تلاشی لی گئی جس دوران غیرقانونی اِسلحہ برآمد ہوا اور اگر گھر گھر تلاشی کا دائرہ وسیع کیا جائے تو پشاور کو اسلحے کے پاک بنایا جا سکتا ہے‘ جس کا مطالبہ ’ہوائی فائرنگ‘ کا انسداد کرنے والے ایک عرصے سے کر رہے ہیں ۔