میلاد النبی: خاص پیغام

بارہ ربیع الاوّل بہ حقیقت ربیع النور (عید میلاد النبی) کے پُرمسرت و بابرکت موقع پر اگر یہ ایک نکتہ پورے یقین کے ساتھ سمجھ اور سمجھا دیا جائے اور ہر خاص و عام کو منتقل بھی ہو جائے کہتفرقات اور اخلافات میں پاکستان کی مضبوطی نہیں بلکہ یہ عمل نابودی کا باعث ہے“ تو گویا اِس عظیم الشان دن منانے کا حق ادا ہو جائے گا۔ آج کی تاریخ میں اہم ترین ضرورت فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے کیونکہ یہ معمولی لعنت نہیں بلکہ یہ ایک لعنت دیگر تمام بُرائیوں کا سبب ہے اور باقی ماندہ سبھی خرابیاں گویا اِس کی پیداوار ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ یہاں ”لعنت“ سے مراد ”اختلاف“ ہے جو ’قومی محرومی (بحران)‘ کا باعث بنا ہوا ہے۔
تفرقہ بازی کے کئی عوامل (اسباب) ہیں جن کی ہر چند نشاندہی ضروری ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گردوپیش میں تفرقہ دیکھا۔ جہاں پیدا ہوئے (مکہ مکرمہ) اور جہاں ہجرت فرمائی دونوں مقامات پر تفرقے عام تھے۔ اِس پوری صورتحال کا بیان (ذکر) کئی قرآنی آیات اور احادیث میں موجود ہے یہی وجہ تھی کہ حکم ہوا کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑو (سورہ¿ آل عمران آیت 103)۔“ یہ راستہ قرآن نے بتایا کہ تفرقہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اور مقام پر اہل یثرب کو مخاطب کرتے ہوئے اِسی مضمون کو زیادہ وضاحت سے بیان کیا (ترجمہ) ”یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کے ذریعے تمہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔“ یہاں (یقینا) جس نعمت کا اشارتاً ذکر ہے وہ ختمی مرتبت‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے‘ جن کی محنت کا نتیجہ دنیا نے دیکھا کہ تفرقہ مٹ گیا اور اہل یثرب میں اخوت و برادری قائم ہوئی۔ خوبصورت اتحاد پیدا ہوا۔ ممکن تھا کہ ایک اور تفرقہ سر اُٹھاتا جو مہاجر و انصار کے درمیان ہوتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اور یوں تفرقہ پیدا ہونے ہی نہیں دیا۔ ہجرت کے موقع پر جو اخوت (مواخات) قائم ہوئی اُس کی وجہ سے عظیم اسلامی ریاست (جسے عرف عام میں ’ریاست مدینہ‘ کہا جاتا ہے) کی بنیاد رکھنا ممکن ہوئی۔ پاکستان کی جو سیاسی قیادت ’ریاست مدینہ‘ کی طرز پر فلاحی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے تو اُسے بنیاد کو سمجھنا ہوگا کہ اِس کے لئے سب سے پہلے اتحاد و اتفاق (اخوت) پیدا کرنا ہوگی۔ یہی بات اگر علامہ اقبالؒ سے پوچھی جائے تو وہ کہیں گے۔ ”منفعت ایک ہے اِس قوم کی نقصان بھی ایک : ایک ہی سب کا نبی‘ دین بھی ایمان بھی ایک .... حرم پاک بھی‘ اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک : کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک .... فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں : کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟“
پشاور کی سرتاج روحانی شخصیت پیرطریقت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری المعروف مولوی جی رحمة اللہ علیہ اکثر عمومی و خصوصی خطبات میں اِس ایک نکتے کے مختلف پہلوو¿ں اور زاوئیوں کا احاطہ کرتے ہوئے فرماتے ”اللہ کے نظام کی بنیاد اتحاد پر ہے اور اِسی ستون پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ حکومت دینی کا پہلا رکن ’وحدت و اتحاد‘ تھا۔ پاکستان میں ہوبہو اِسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہر خاص و عام نعمت الہٰی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کی جانب متوجہ ہو۔ اُن سے اپنی محبت اور تعلق کے عہد کی تجدید کرے۔ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے مابین ظاہری طور پر نہیں‘ ہم بالمشافہ اُن کی قربت میں نہیں لیکن اُن کی دی ہوئی کتاب‘ طریقہ (سنت)‘ عترت اور میراث موجود ہے کہ جس کے سبب سے اخوت قائم ہوئی۔ ”حبل اللہ“ موجود ہے۔ یہی اللہ کی رسی یا راستہ پیش کیا گیا جو معلوم و موجود ہے۔ قرآن اور دین ”حبل اللہ“ ہیں۔ حضور اگر نہیں تو وہ رسی موجود ہے جس سے اُمت بنی۔ اِس لئے آج کی اُمت کا فریضہ ہے کہ وحدت کا قیام اور وحدت کا فروغ ہے۔ اہل قلم و بیان کو (سب طبقات) اپنی تمام توانائیاں سمیٹ کر اخوت کا منظر قائم کریں اور دنیا کے سامنے یثرب کا نمونہ تکرار کریں۔وحدت ایک عمل ہے نعرہ نہیں ہے۔ پاکستان میں وحدت کو نقصان اُن لوگوں نے پہنچایا ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہے اِنہوں نے وحدت کو پاکستان میں گویا ناقابل عمل ثابت کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ’پاکستان میں وحدت‘ کی بات کی جاتی ہے تو اندرون بیرون ملک سے آنے والوں حیرت زدہ سوالات میں یہ سوال بھی شامل ہوتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں وحدت قائم ہو سکتی ہے؟ بالکل ممکن ہے اور نہ صرف ممکن ہے بلکہ قابل وقوع ہے‘ عین ممکن ہے اور واجب ہے کہ وحدت قائم کر کے دکھائی جائے۔؟ ہمارے ہاں سیاسی بیانات کا بیشتر حصہ ایک دوسرے کی مخالفت اور تنقید محض تنقید پر مبنی ہوتے ہیں اور ایسے سیاسی بیانات پورے اہتمام سے شائع کئے جاتے ہیں‘ جن میں طنز (جگتوں) کی آمیزش ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں جامعات ہیں جہاں مختلف علوم کے ماہر اساتذہ (دانشور) موجود ہیں لیکن کیا کبھی اُن کے خیالات بھی کسی شہ سرخی میں شائع ہوئے؟ اگر نہیں تو ذرائع ابلاغ و بیان کو قرآن کریم کی 24ویں سورہ مبارکہ ”نور“ کی 19ویں آیت پر غور کرنا چاہئے جس میں ایک وسیع مضمون مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ”جو لوگ اِس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں ’تشیع الفاحشة‘ ہو اُن کے لئے دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ (وہ کچھ) جانتا ہے (جو) تم نہیں جانتے۔“ ’تشیع الفاحشة‘ کا عمومی ترجمہ ”فحاشی“ کیا جاتا ہے لیکن قبلہ مولوی جیؒ کے بقول ’تشیع الفاحشة‘ کے بظاہر آسان لیکن لغوی و اصل معنی بہت وسیع ہیں اور اِس میں ہرقسم کی بہتان تراشی‘ عیب جوئی‘ جھوٹ‘ حرام کاموں کی ترغیب حتیٰ کہ ایسا کلام و تحریر بھی آتا ہے جس سے فرقہ واریت میں اضافہ ہو ا۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں اخوت اور یگانگت کوفروغ دینے کیلئے تمام وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لا جایا خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفت اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے یہاں پر اتفاق اور اتحاد کا پرچار کیا جائے اور اس سلسلے کو عام وخاص تک دراز کیا جائے یہی موجودہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور صحیح معنوںمیں اسلامی معاشرے کی تشکیل کیلئے ضروری لوازمات کو پورا کرنے کے عمل کی تکمیل بھی اور اس سلسلے میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔