در آمدی ٹما ٹر

خبر آئی کہ پا کستان نے ایران سے ٹما ٹر در آمد کرنےکا فیصلہ کر لیا ہے اور بہت جلد ایرانی ٹما ٹروں کی پہلی کھیپ پا کستان پہنچنے گی اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ روس سے درآمدی گندم کا پہلا جہاز کراچی کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والا ہے ہمارے بچے ، نو اسے اور پو تے سکول کے اندر نصابی کتا بوں میں جب معاشرتی علوم کا سبق پڑھتے ہیں تو ان کو یا د کرا یا جا تا ہے کہ پا کستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کے انا ج پھل اور سبزیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں بچہ سکول سے جب آتا ہے تو اس کو بتا یا جا تا ہے کہ یہ گندم روس سے آیا ہے امریکہ اور آسٹریلیا سے آنے والے گندم کے مقا بلے میں اس کی لذت دو گنی ہے ، یہ ٹما ٹر ، یہ آلو اور یہ پیا ز ایران سے منگوا یاگیا ہے بھارتی ٹما ٹر ، پیاز اور آلو سے یہ زیا دہ لذیز ہیں اور سستے بھی ہیں بچہ پو چھتا ہے ہماری کتاب میں آیا ہے کہ پا کستان ایک زر عی ملک ہے استاد نے اس کی تشریح کر کے بتا یا تھا کہ زر عی ملک میں اناج اور پھل ہو تے ہیں سبزیاں اگائی جا تی ہیں گھر میں گندم روس کا ہے ، آلو ، ٹما ٹر اور پیاز ایران کے ہیں انگور اور ناشپا تی چین کے ہیں تربوز‘ سردہ‘ بادام ‘ کا جو اور پِستہ افغا نستان کے ہیں تو ہماری کتا بوں سے زرعی ملک والا سبق ہٹا یا کیوں نہیں جا تا‘دسویں جماعت کے بچے کا سوال اپنی جگہ درست ہے ‘ اس بات کوطوطے کی طرح رٹہ لگا نے کا کوئی فائدہ نہیں اور خصو صاً بچوں کا ذہن سکول اور گھر میں الگ الگ بیا نیہ (Narrative) دیکھ کر عجیب انتشار سے دوچار ہو جا تا ہے یہ اُس زما نے کی بات ہے جب محکمہ تعلیم کے حکام سکو لوں کا معائنہ کر تے تھے کلا سوں میں جا تے تھے طلباءسے سوالات پوچھتے تھے اور اسا تذہ کی کار کر دگی کو پرکھتے تھے 2010کے بعد سکو لوں کے معا ئنے کی روایت ختم ہو گئی گذشتہ 10سالوں میں کسی آفیسر نے کسی سکول کا معا ئنہ نہیں کیا کسی کلاس میں جھانکتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اُس زما نے میں ایک آفیسرنے کلا س میں جا کر پوچھا کس مضمون کا پیریڈ ہے ایک بچے نے کہا جغرافیہ کا پیریڈ ہے ‘ آفیسر نے پو چھا آج کا سبق کیا ہے ؟ بچے نے کہا ”ہمارا ما حول “ آفسیر نے پو چھا ما حول کسے کہتے ہیں ؟ بچے نے جواب دیا یہ آسمان یہ چاند تارے یہ سورج یہ سمندر یہ پہاڑ اور یہ زمین یہ سب ماحول ہے‘ آفیسر بیحد متا ثر ہوا پھر اُس نے پو چھا زمین چپٹی ہے یا گول ہے ؟ بچے نے کہا زمین گھر میں چپٹی ہے سکول میں گول ہے آفیسر نے پو چھا یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ بچے نے کہا استاذ کہتا ہے زمین گول ہے باپ کہتا ہے زمین چپٹی ہے نتیجہ ایسا ہے کہ ہم گھر کے ما حول اور زمینی حقا ئق کو دیکھ کر سکول کی کتا بیں تبدیلی کر نا چا ہیں تو بات دور تک جائیگی اور یہ سلسلہ کہیں بھی رکنے کا نام نہیں لیگا قابل غور بات یہ ہے کہ زرعی ملک کے پاس ڈا لر نہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے ، تیل کی قلت ہے تو قابل فہم بات ہے انفارمیشن ٹیکنا لو جی میں پڑوسی مما لک سے پیچھے ہے تو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آتی مگر جب ہم کہتے ہیں کہ گندم ‘ آلو ‘ پیاز اور ٹما ٹر بھی پڑو سی مما لک سے منگوا نا پڑتا ہے تو اس بات سمجھنے میں مسئلہ آجا تا ہے اندر کی کہا نی لا نے والے سیا نے کہتے ہیں کہ ملک کا انتظام طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ہے ان حلقوں کو پارلیما نی زبان میں لا بی کہا جا تا ہے یہ حلقے اپنے اپنے مفا دات کا تحفظ کر تے ہیں ہمارے ہاں سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی طاقتور لابی مو جود ہے‘جاگیر داروں کی مو ثر لا بی اپنے مفا دات کا تحفظ کرتی ہے چھوٹے زمینداروںاور کاشتکاروں کی کوئی لا بی نہیں ملکی معا ملات اور حکومتی فیصلوںمیں ان کا کوئی حصہ نہیں لو گ پوچھتے ہیں کہ جا گیردارو ں کی لا بی چھوٹے زمینداروں اور کا شتکاروں کے مفا دات کا تحفظ کیوں نہیں کرتی ؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ اور آسان ہے جا گیر دار نے کبھی گندم ‘ پیا ز ‘ ٹماٹر اور آلو کی فصل اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی وہ تو یورپ‘ امریکہ یا ملک کے بڑے شہر کی پُر تعیش کوٹھی میں بیٹھ کر زمین کی آمد ن سے روزی کما تا ہے اُس کا پیداوار سے کوئی لینا دینا نہیںسپورٹ پرائس ‘اچھے بیج‘ٹیو ب ویل یا نہر کے پا نی‘سستے کھا د‘ ٹریکٹر‘ تھریشر اور دیگر زرعی آلا ت سے اسکا کوئی سرو کار نہیں یہ سردردی چھوٹے زمیندار اور کاشتکار کو چین سے سونے نہیں دیتی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ زمیندار اور کا شتکار کا نما ئندہ کبھی کسی طاقتور لا بی کی حمایت حا صل نہیں کر سکتا سچ پوچھئے تو اس بے چارے کی کوئی نمائندگی کسی فورم پر نظر نہیں آتی اب لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں آٹے ‘ چینی ‘دال‘ ٹما ٹر اور آلو کے معیا ر پر بھی لے دے ہو تی ہے مگر دکھ کی بات یہ نہیں دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پا کستان زرعی ملک ہے 1997میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے خود کفیل ہو گیا تھا گزشتہ 22سالوں سے خود کفیل چلا آرہا تھا مگر اب خود کفالت سے طفیلی پن کی طرف آگیا ہے ٹما ٹر ، پیاز ،آلو اور گندم بھی در آمد کر تا ہے عوام کو در آمدی ٹما ٹر کھلاتا ہے بس ہمیں اس بات کا بڑا دکھ ہے کسی اور بات کا اتنا دکھ نہیں ۔