مسلمانوں کےلئے ’بعداَزخدا‘ بزرگ و مقدس ترین ہستی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا کوئی بھی دور‘ کوئی بھی زمانہ ہو‘ نبی آخر الزماں کی حرمت و شان کے خلاف ایک نقطہ بھی ناقابل برداشت رہا ہے اور مسلمان اِس بات کو اپنے لئے باعث سعادت و فخر سمجھتے ہیں کہ دین خالص کو خالص رکھنے کےلئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیوں پیش کی جائیں ‘ نبی کریمکی شان اقدس میں گستاخی کا مقابلہ کرنے کےلئے انفرادی طور پر و اجتماعی سطح پر تیاری و آمادگی کی ضرورت ہے لیکن یہاں جذبات کے ساتھ تدبیر و تدبر سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے کہ مبادا اپنا ہی نقصان نہ کر لیا جائے اور اسلام جو پوری کائنات کےلئے امن و سلامتی کا درس لیکر نازل ہوا‘ اُس کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والوں کو ایسی مثالیں مل جائیں‘ جنہیں پیش کرتے ہوئے وہ اسلام کو تنگ نظر‘ انتہاءپسند‘ شدت پسند اور دہشت گرد جیسے القابات سے پکاریں حالانکہ اِسلام نے اِن میں سے ہر ایک کی نفی کی ہے اور اِسلامی تعلیمات کا کوئی ایک جز‘ کوئی ایک عمل یا عبادت ایسی نہیں جس میں احترام انسانیت و احترام آدمیت کا درس نہ ہو۔ تصور کریں کہ اسلامی عبادات میں حج سال میں ایک مرتبہ‘ روزہ سال میں ایک مرتبہ‘ نماز دن میں پانچ مرتبہ اور وہ بھی مجموعی طور پر دو گھنٹے کی عبادت ہے جس میں اگر نیند کے سات گھنٹے شامل کر لئے جائیں تو باقی ماندہ 12 سے 14 چودہ گھنٹے ہر ماننے والے کےلئے لازم ہے کہ اپنی سماجی زندگی‘ لین دین اور بول چال میں عمل سے ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ اہل خانہ کے ساتھ سلوک سے لیکر ہمسائیوں کے حقوق تک مسلمان کی عملی زندگی کا بیشتر وقت عبادات میں نہیں بلکہ معاملات میں گزرتا ہے‘ جس کی اصلاح کےلئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’روشن سیرت‘ برائے رہنمائی اور توانائی موجود ہے ۔اہل مغرب نے ”اسلام کی شہ رگ“پر حملہ کیا ہے۔ ذات ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے اور اِن خاکوں کو ’آزادی¿ اظہار‘ کے زمرے میں شمار کرنا گویا مغربی و امریکی حکمرانوں اکثریت اور غیرمسلم دانشوروں کی ایک تعداد اِس بات کو جائز سمجھ رہی ہے کہ مسلمانوں کی ”دل آزاری“ کی جائے۔ اپریل 2015ءمیں معروف عالمی تحقیقاتی ادارے ’پیﺅ (PEW) ریسرچ سنٹر‘ نے دنیا کے 198 ممالک میں بسنے والوں کو اُن مذاہب کے لحاظ سے شمار کیا اور سال 2010ءسے 2050ءتک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے اعدادوشمار و تخمینہ جات مرتب کئے۔ مذکورہ تحقیق ویب سائٹ (pewforum.org) سے تفصیلاً حاصل کی جا سکتی ہے‘ جس میں ممالک کے انفرادی اور اجتماعی اعدادوشمار و تخمینہ جات سے کئی دلچسپ نتائج بھی اَخذ کئے گئے ہیں اور اِن میں یہ بات شامل ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے اور اِس کی وجوہات میں کئی عوامل کا ذکرکیا گیا ہے جیسا کہ مسلمانوںکے ہاں بچوںکی پیدائش دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے۔ مسلمان مختلف وجوہات کی بنا پر یورپ و امریکہ کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ خصوصی ویزوں کے ذریعے مغربی و یورپی ممالک جن ہنرمندوںکو اپنے ہاں مستقلاً نقل مکانی کی پیشکش کرتے ہیںاُن میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے وغیرہ۔ بہرحال بنیادی بات یہ ہے کہ اکتوبر 2020ءکے اختتام تک دنیا کی قریب آٹھ ارب (7.8 بلین) میں 31.1 فیصد عیسائی‘ 24.9فیصد مسلمان‘ 15.6فیصد کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے‘ 15.2 فیصد ہندو‘ 6.6 فیصد بدھ مت‘ 5.6 علاقائی مذاہب اور ایک فیصد ایسے ہیں جو غیرمعروف مذاہب کے پیروکار ہیں۔ مذکورہ جدول کا ذکر کرتے ہوئے جس خاص نکتے کا بیان کیا گیا وہ یہ ہے کہ عیسائیت اور اِسلام کے ماننے والوں کے درمیان نفری تعداد کا فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کےلئے جہاں مغربی ممالک نے (سرکاری و غیرسرکاری طور پر یعنی مانتے ہوئے اور نہ مانتے ہوئے) اپنے مالی‘ افرادی اور تکنیکی وسائل کا بڑا حصہ عیسائیت کے پرچار پر خرچ کرنا شروع کر دیا ہے وہیں اسلام کے مقدسات کی توہین کی کوششیں بھی ”باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت“ جاری ہے‘ رسائل و جرائد حتیٰ کہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (ٹوئیٹر‘ فیس بک‘ میسنجر‘ یوٹیوب‘ انسٹاگرام‘ ٹیلی گرام وغیرہ کے اکاو¿نٹس) پر جن اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے اُن میں بڑی تعداد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جاننے جیسے پُرکشش پیغامات سے ہوتی ہے جس کی ابتدا میں خط و کتابت‘ بعدازاں آن لائن تبادلہ خیال اور آخر میں ’کامیاب عملی زندگی کا لالچ‘ دے کر مسلمان نوجوان کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے ۔ ا سکا تدارک ضروریہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کےلئے سکول‘ کالج اور جامعات کے تعلیمی درجات مکمل کرنے کے بعد نہ تو حسب تعداد روزگار کے مواقع موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں مزید تعلیم یا کسی ایسے ہنر کی تربیت کےلئے حکومت‘ معاشرہ یا والدین رہنمائی فراہم کرتے ہیں‘ جو اُن کی ذہنی و جسمانی صلاحیت و طاقت کے مطابق ہو۔ ہزاروں کی تعداد میں امتحانات میں کامیاب ہونے والوں میں سے سینکڑوں طلبہ کو اگلے مدارج میں داخلے ملتے ہیں اور یوں جن طلبا و طالبات کے ذہن میں شروع دن سے تعلیم کی اہمیت کا بیج بویا جاتا ہے‘ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ نصاب کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کے مدارج طے کرنا ہی تعلیم ہے اور اُنہوں نے اپنے حصے کی ذمہ داری درحقیقت پوری کر دی ہے حالانکہ ایسا نہیں اور ”تعلیم“ تدریسی اداروں میں پڑھائی جانے والی گنتی کی چند کتابوںکی زیادہ بلند شعار و شعور کا نام ہے جو زندگی کے آغاز سے انجام تک ’جملہ سرگرمیوں (معمولات)‘ کا احاطہ کرتی ہے اور یہ ایک طرح کے طرز فکروعمل اور مقصد حیات کا نام ہے۔ علم کیا ہے؟ تعلیم اور نصاب کیا ہیں‘ کیا ہونے چاہئیں؟ اور اِن کی روشنی میں بالخصوص کسی مسلمان کی عملی زندگی کس طرح مرتب (تشکیل) ہو‘ اِس سے متعلق فرائض‘ واجبات‘ سنتیں اور سماجی ذمہ داریاں منبر و مسجد‘ ٹیلی ویژن و ریڈیو‘ تعلیمی اداروں اور گھروں سے کھول کھول کر بیان ہونی چاہیئں اسلام جیسی نعمت اور حقیقت کا مکمل ادراک تو شاید کسی کےلئے بھی ممکن نہ ہو لیکن اگر مقصد ہی کو پہچان اور اِس درک کو دریافت کر لیا جائے تو کافی ہوگا کہ ایک مسلمان کے لئے عملی زندگی کی اہمیت کیا ہے‘ اِس مسافت میں کتنے موڑ اور سفر میں کہاں کہاں نقب لگائے راہزن بیٹھے ہیں جو مسلمانوں کو اسلام سے محروم کرنے اور اِن کی حقیقی متاع حیات‘ عمر بھر کی کمائی لوٹ سکتے ہیں!