سانحہ دیر کالونی

سانحہ دیر کالونی اپنے پیچھے یقینا بہت سے سوالات چھوڑ گیاہے جن کاجواب بروقت تلاش کیاجانا ضرور ی ہے تحقیقات جاری ہیں اور اس کے بعد پتہ چلے گا کہ کس کی کارستانی ہے تاہم اس میں غیر ملکی ہاتھ کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکیونکہ اس واقعہ سے محض ایک روز قبل بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرنے نئے بیانیے کے تحت پاکستان اور چین کو جنگ کی دھمکی دی تھی اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت اور امریکہ مل کر سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں گزشتہ تین ماہ سے وزیر ستان اور کوئٹہ میں دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری ہیں اور دہشت گردوں کو باقاعدہ سہولت کاروں کی عملی مدد حاصل ہے، پاک فوج نے عوام کی تائید وحمایت سے بڑی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ کردیا تھا لیکن ملک دشمن عناصر کو بیرونی امداد حاصل ہے روپیہ پیسہ بھی دہشت گردوں کو ملتا ہے، جدید اسلحہ بھی انہیں دیا جاتا ہے جبکہ سہولت کاری کی آسانیاں بھی انہیں پوری طرح میسر ہیں ، بدقسمتی سے ہمارے صوبہ میں پولیس کی نفری انتہائی کم ہے یہاں 30 ہزار مساجد اور 4 ہزار مدرسوں کی نگرانی احسن طریق سے ممکن نہیں ، آئی جی پی پولیس نفری کی کمی کی بات کررہے ہیں، بد قسمتی سے اس وقت ہمارا بلدیاتی نظام بھی موجود نہیں ہے بلدیاتی نمائندے اگر موجود ہوتے اور کام کررہے ہوتے تو ممکن ہے کہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ، اس کے علاوہ امن کمیٹیاں بنا کر ایسے المناک واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے، ان سب کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے اس بیان کو ہر صورت انتہائی سنجیدہ لینا چاہئے کہ اپنی سرزمین کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زمین پر بھی جاکر لڑیں گے، نیو انڈیا ڈاکٹر آئن کے تحت جہاں خطرہ ہوگا وہاں میدان جنگ بنادیں گے اسی کے ساتھ بی جے پی کے ایک سینئر رہنماءکا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے پاکستان اور چین کے ساتھ جنگ کےلئے تاریخ طے کرلی ہے اس بات پر کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کا سو فیصد ہاتھ ہے بھارت کو اصل صدمہ یہ ہے کہ اسے افغان امن عمل سے نکال باہر کردیا گیا ہے جس سے افغانستان میں بھارت کا کردار پہلے سے بڑا کم ہوگیا ہے وہ افغان امن عمل کی کامیابی کو اپنی نا کامی سمجھتا ہے اس لئے اس کی پوری کوشش ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچا سکتا ہے پہنچائے اس ضمن میں وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اور آرمی چیف کو چاہئے کہ وہ افغان صدر سے اس معاملہ پر بات کریں ساری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اس کا اظہار اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام نے بھی کیا ہے اور بھارت کی دہشت گردی کی رپورٹیں اقوام متحدہ کے پاس ہیں داعش کے کئی دفاتر بھارتی شہروں میں ہیں ، دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بڑے اور طاقتور ممالک اس لئے بھارت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے، بڑی منڈی ہے اس لئے یہ ممالک بھارت کو دہشت گرد وں کا سرپر ست سمجھتے ہوئے بھی اس کے خلاف سخت قدم نہیں اٹھاتے۔ ان ممالک کی خود غرضانہ مصلحتوں نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو مہمیز دی ہے، اس خطہ میں بھارت پاکستان کو بڑا حریف سمجھتا ہے وہ پاکستان کی آزادی کو آج بھی صدق دل سے تسلیم نہیں کرتا ، اس کے تقسیم ہند کے زخم آج بھی ہرے ہیں وہ پاکستان کو ختم کرنے کے درپے میں ہے اس گھناﺅ نے مقصد کےلئے وہ اربوں روپے خرچ کررہا ہے ، دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والے ملکوں میں بھی بھارت سرفہرست ہے، لیکن پاکستان کے عوام اور مسلح افواج نے ہر بار بھارت کے مذموم عزائم نا کام بنائے ہیں، مساجد ، مزاروں، سکولوں، امام بارگاہوں، بازاروں اور چھوٹے بڑے مارکیٹوں کو بم دھماکوں سے اڑانے میں بھارت کا کلیدی کردار رہا ہے۔دہشت گردی کی موجودہ لہر ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ایک طرف اپوزیشن اتحاد کی تحریک زوروں پر ہے، دوسری طرف حکومت معیشت کی بحالی کے کاموں میں مصروف ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات کررہی ہے ۔ ایسے وقت میں حکمران طبقہ اور اپوزیشن اتحاد آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے دست تعاون بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ، اسی وقت ملک کو اندرونی وبیرونی خطرات کا سامنا ہے ان خطرات سے نمٹنے کےلئے ہم سب کو متحد ہونے اور دشمن کو کرارا جواب دینے کےلئے اپنے تمام تر سیاسی اختلافات ترک کرتے ہوئے میدان عمل میں آنا ہوگا دہشت گردوں کو ہم باہم مل کر ختم کرسکتے ہیں ہم نے پہلے بھی ان ہی سطور میں متعدد بار لکھا ہے کہ ملکی سیاسی استحکام سے ہمارا معاشی استحکام وابستہ ہے، سیاسی اور معاشی استحکام کے ذریعے ہم عوام کے مسائل بھی حل کرسکتے ہیں۔ اور دشمنوں کے مذموم عزائم بھی ناکام بنا سکتے ہیں، دہشت گردی کی جنگ میں حکومت، اپوزیشن اور عوام نے جس یک جہتی کا مظاہرہ کیا تھا ایسے ہی ایک اور مظاہرے کی اس وقت بے حد ضرورت ہے ہم حکمرانوں اور اپوزیشن سے مﺅدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا ملک وقوم کی خاطر متحد ہوجائیں اسی میں ہم سب کی بقاءکا راز مضمر ہے ۔ سانحہ دیر کالونی پر صدر مملکت ، وزیر اعظم وفاقی وزیر داخلہ ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ، سیاسی لیڈران اور دیگر نے سخت غم وغصہ کا اظہار اور دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کا اعلان تو کیا ہے۔ لیکن محض بیانات سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کےلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ایسے اقدامات کےلئے حکومت اوراپوزیشن کاایک ہی صف میں ہونا ضروری ہے ا س لیے کم از کم ملکی سلامتی کے حوالہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپورتعاون کیاجائے ۔