ٹیلی ویژن یا فلمی مواد کی بذریعہ تیزرفتار انٹرنیٹ فراہمی کے طریقہ¿ کار کو تکنیکی طور پر ’اُوور دی ٹاپ ‘ کہا جاتا ہے جبکہ مذکورہ نشریاتی مواد کو بذریعہ تار (کیبل نیٹ ورکس)‘ خلائی سیارے (سیٹلائٹ ڈش انٹینا) یا انٹینا گھر گھر پہنچانے کے مقابلے انٹرنیٹ ایسا نیا ذریعہ اور وسیلہ ہے‘ جو کم لاگت میں زیادہ وسعت کے امکانات بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں نیٹ فلیکس ‘ ایمازون ‘ آئی ٹیونز اور ہوم بکس آفس‘ چند کامیاب کاروباری ادارے ہیں۔ پاکستان میں مختلف غیرملکی ’اُو ٹی ٹیز‘ کمپنیوں کی خدمات سے استفادہ ہو رہا ہے باالخصوص جب سے حکومت نے بھارت کے ’ڈائریکٹ ٹو ہوم‘ نشریاتی وسیلوں پر پابندی عائد کی ہے۔ سال 2015ءمیں عائد کی جانے والی پابندی کے موقع پر وفاقی حکومت کے نگران ادارے ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘ کی جانب سے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ’ڈی ٹی ایچ‘ صارفین ہر سال بھارت کے تفریحی چینلوں کو دیکھنے کے لئے 20 کروڑ امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں اور یہ رقم غیرقانونی ذرائع سے بھارت منتقل ہوتی ہے۔ بہرحال مذکورہ پابندی کے بعد ملک گیر چھاپہ مار مہمات کا آغاز ہوا۔ بھارتی ’ڈی ٹی ایچ‘ آلات کی تلفی اور ریچارج کی سہولیات فراہم کرنے والوں کی گرفتاریاں عمل میںآئیں ۔ اِس کے علاوہ ’کارڈ شیئرنگ‘ کا نیا اسلوب ’ڈونگل شیئرنگ‘ متعارف ہو چکا ہے اور پاکستان میں ’ڈبل اور ٹرپل ٹیونر‘ والے سیٹلائٹ ریسورز سات سے تیس ہزار روپے تک باآسانی مل رہے ہیں۔ گیارہ کروڑ بھارتیوں کے لئے کیبل نیٹ ورک کے علاوہ ’ڈی ٹی ایچ‘ سروسز فراہم کرنے والے چاروں نجی ادارے منافع بخش ہیں‘ جن کا سالانہ منافع لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالر میں ہے اور وہ اب ٹیلی ویژن نشریات کے علاو¿ہ انٹرنیٹ کی بذریعہ ’ڈی ٹی ایچ‘ فراہمی میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ کے ذریعے خبر دی تھی کہ ”پاکستان بہت جلد اپنی پہلی ’اُو ٹی ٹی‘ نشریات شروع کرنے والا ہے۔“ بہرحال بقول وزیر ٹیکنالوجی اِس سلسلے میں ’پیمرا‘ کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ مذکورہ ’اُو ٹی ٹی‘ کے لئے قواعد و ضوابط اور اجازت نامے سے متعلق طریقہ¿ کار وضع کریں۔پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلی ویژن مواد کی نشریات بذریعہ ’پی ٹی سی ایل‘ پہلے ہی ہو رہی ہے تاہم ’اُو ٹی ٹی‘ میں ایسا خصوصی تفریحی مواد بھی شامل ہوتا ہے جو کسی دوسرے ذریعے سے نشر نہیں ہوتا اور اِسی وجہ سے نیٹ فلیکس‘ ایچ بی او اور ایمازون وغیرہ جیسے ادارے ایک سے سبقت لیجانے کے لئے نشریاتی مواد کی تیاری میں بھاری سرمایہ کرتے ہیں کیونکہ اُن کے صارفین کی تعداد پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا پاکستان کا نجی شعبہ بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور پاکستان کا ’اُو ٹی ٹی‘ نشریاتی مواد جو کہ بیشتر اردو زبان میں ہوگا اُس کی عالمی مارکیٹ میں قدر کیا ہوگی ۔پاکستان کی پہلی ضرورت اپنا ’ڈی ٹی ایچ‘ لانچ کرنے کی ہے‘ جس سے فاصلاتی تعلیم بھی ایک نئے اور انقلابی دور میں داخل ہو جائے گی۔ دوسری ضرورت تیزرفتار انٹرنیٹ کی فراہمی ہے جس کے لئے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کو آپٹیکل فائبر کیبل نیٹ ورک سے جوڑنا ہے۔ برق رفتار انٹرنیٹ کی وساطت سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جا سکے گا جس سے کئی ممالک میں استفادہ ہو رہا ہے۔ بالخصوص کورونا وبا کے سبب سماجی سرگرمیاں معطل کرنے کے منفی اثرات اُن ممالک پر انتہائی کم مرتب ہوئے جن کے ہاں برق رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی کا نظام موجود تھا۔ پاکستان کے لئے ایسی مثالیں دعوت فکر و عمل رکھتی ہیں کہ ڈی ٹی ایچ اور ملک گیر برق رفتار انٹرنیٹ کے بغیر تیسرا کوئی بھی وسیلہ خاطرخواہ پائیدار ثابت نہیں ہوگا۔ مذکورہ دونوں ضرورتیں پوری کرنے کے بعد تیسری حاجت ’اُو ٹی ٹی‘ متعارف کرنے کی ہوگی جس کی ضرورت کا درست اور حقیقی اندازہ آپٹیکل فائبر کے پورے ملک میں پھیلنے کے بعد ممکن ہوگا۔ بھارت کی آبادی 130 کروڑ جبکہ پاکستان کی آبادی 21 کروڑ ہے اور اِس فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ نکتہ بھی فراموش نہیںکرنا چاہئے کہ اگر بھارت کے 130 کروڑ میں سے صرف 10 کروڑ ڈی ٹی ایچ صارفین ہیں تو پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں ’ڈی ٹی ایچ‘ صارفین کتنے ہوں گے اور اُن میں سے کتنے بیک وقت ’تیزرفتار انٹرنیٹ‘ کی سہولت بھی خریدنا پسند یا مالی طور پر اِس کا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہوں گے؟