محکمہ بلدیات اوراصلاحاتی ایجنڈا

محکمہ بلدیات کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ براہ راست عوامی شہری مسائل کے ساتھ جڑا ہونے کی وجہ سے لوگوں کو روزمرہ کے معاملات میں اس کے ساتھ واسطہ پڑتاہے نالیوں اورگلیوں کی تعمیرومرمت ہویا پھر صفائی کاعمل ،پینے کے پانی کے معاملات ہوں یا پھر نکاسی آب کے مسائل ،قبرستانوں کو قبضہ گروپوں سے بچاناہوکہ فٹ پاتھوں اورسڑکوں کو تجاوزات مافیا کے چنگل سے چھڑانا ،بغیر نقشوں کی تعمیر ات کی حوصلہ شکنی ہو کہ پارکنگ کی گھمبیرہوتی صورت حال سے چھٹکارے کی تدبیر ہر جگہ محکمہ بلدیات کاکردار ہی اہمیت کاحامل دکھائی دیتاہے کیونکہ یہ تمام معاملات اسی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اس ضمن میں پشاور کے باسی بخوبی ادرا ک رکھتے ہیں کیونکہ ان کو قبرستانوں پر قبضہ ،تجاوزات مافیا کی بے لگامی ،آبنوشی و نکاسی آب کے ساتھ ساتھ صفائی کے حوالہ سے کئی قسم کے مسائل کاسامنا ہر دور میں رہتاآرہاہے جب کبھی شہر کو متحرک میئر ،فعال ایڈمنسٹریٹر یا پھر بھاگ دوڑکرنے والا ضلعی ناظم ملا تو شہریوں نے کسی حدتک سکھ کاسانس ضرور لیا اسی طرح جب کبھی محکمہ بلدیات کو چست و بیدار مغز وزیر نصیب ہوا تو شہریوں کے مسائل حقیقی معنوں میں گھروں کی دہلیز پر حل ہونے لگے ویسے بھی جمہوری معاشروںمیں محکمانہ امور کی فعالیت کی ذمہ داری متعلقہ وزیر موصوف پرہی عائدہوتی ہے ہمارے ہاں بدقسمتی سے اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ جس منتخب نمائندے کو کوئی اہم محکمہ حوالہ کیاجاتاہے تو معاملات کی سمجھ بوجھ کے بجائے ان کی توجہ تقرریوں ،تبادلوں اوربھرتیوں پر مرکوز رہتی ہے جس سے پھر عام لوگوں کے مسائل ہی میں اضافہ ہوتاجاتاہے چونکہ محکمہ بلدیات جیساکہ بتایا گیا براہ راست عوامی وشہری امور سے جڑا ہواہے اس لئے اس کی فعالیت بہت معنی رکھتے ہیں فعالیت کے لئے ضروری ہے کہ وزیر موصوف تمام امور سے خود کم سے کم وقت میں آگہی حاصل کرکے خود کو افسر شاہی کی محتاجی سے بچانے کی حکمت عملی اختیار کرے کیونکہ جب اسے تمام معاملات پر عبور حاصل ہوگا تکنیکی امور میں بھی مہارت حاصل ہوگی تو پھر اسے کوئی بھی دھوکا نہیں دے سکے گا اوراس سے حکومتی کارکردگی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی ضمن میں اگر ہم آج صوبائی وزیر بلدیات اکبر ایوب کی بات کریں تو صورت حال بہت حد تک حوصلہ افزاءدکھائی دیتی ہے‘ اکبر ایوب خان کا تعلق ضلع ہری پور کے ممتازسیاسی گھرانے سے ہے فیلڈ مارشل محمد ایو ب خان کے پوتے اور اختر ایوب خان کے فرزند ہیں انکے بڑے بھائی یوسف ایوب ہزارہ اور صوبہ کی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں 1988ءمیں یو سف ایوب پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر صوبہ کی تاریخ کے کم عمر ترین صوبائی وزیر بنے انہوں نے اپنی فتوحات کاسلسلہ 1990ء،1993ءاور 1997ءمیں بھی برقراررکھا بعدازاں یوسف ایوب 2013ءکے انتخابات میںبھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور سی اینڈ ڈبلیو کے صوبائی وزیر بنائے گئے تاہم عدالتی فیصلے کے بعد انکو اپنی نشست چھوڑنی پڑی تو اکبر ایو ب خان کو میدان میں اترنا پڑا جو اس سے پہلے اپنے بھائیوں کی انتخابی مہم چلایا کرتے تھے عملی سیاست سے انہوںنے خودکو دوررکھا ہوا تھا 1971میں پیدا ہونے والے اکبر ایوب خان نے اپنی تعلیم برن ہال سے حاصل کی اور پھر نوجوانی میں ہی کاروبار کی بھاری ذمہ داریاں سنبھال لیں اس دوران بھائیوں کی سیاست میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے تاہم ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیاجب انکو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاگیا یوں 2014ءمیں اپنی زندگی کاپہلا انتخابی معرکہ لڑا اور کامیابی بھی حاصل کی جس کے بعد انکو سی اینڈ ڈبلیو جیسے انتہائی اہم اور بھاری بھرکم محکمے کی ذمہ داریا ں تفویض کی گئیں جو انہوں نے احسن طریقے سے انجا م دینی شروع کیںجس کے بعد 2018ءکے انتخابات میںایک بارپھرمیدان میںاترے اوراس بار ریکارڈ تعدادمیں 67ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی وہ صوبہ بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے رکن صوبائی اسمبلی ہیں دوسرے نمبر پر ا ن کے بھائی ارشد ایوب ہیں جنہوںنے 56ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ان کے گھرانے کی علاقہ کی سیاست پرگرفت کتنی مضبوط ہے اوریقینا اس کی وجہ سے بھرپور عوامی رابطے ہی ہیں حکومت سازی کے مرحلہ پر اکبر ایو ب کی پچھلی کارکردگی دیکھتے ہوئے مشیر کے بجائے اس بار انکو ترقی دیتے ہوئے صوبائی وزیر بنایا گیا یقینا وہ کابینہ کے ان ممبران میں شامل ہیں جن کے پیچھے عشروں کاسیاسی تجربہ کار فرما ہے اسی وجہ سے معاملات سے نبرد آزمائی کے ماہر ہیں چنانچہ سابق دور کی طرح موجودہ دور میں بھی اہم وزارتی کمیٹیوں میں اکبر ایوب خان کوشامل کیاجاتاہے کابینہ کے فعال اراکین میں شمار کئے جاتے ہیں دفتر سے غیرضروری طورپر غیر حاضری کے قائل نہیں ساتھ میں حلقہ کے لوگوں سے ساتھ بھی قریبی رابطے میں رہتے ہیں ہرکسی کے ساتھ خوش اخلاقی اورخندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ان کا شیوہ ہے پی ٹی آئی کے منشور پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیںجب وزیر بنائے گئے تو وہاں بھی اصلاحاتی ایجنڈا پرعمل پیرارہے اوراس وقت پوری طرح سے محکمہ بلدیات کی ری سٹرکچرنگ میں مصروف عمل ہیں انہوں نے تمام غیر متعلقہ ملازمین کو واپس اپنے محکمو ں میں بھجوانے اور دیگر محکموں میں کام کرنے والے بلدیاتی ملازمین کو فوری واپس بلانے کااعلان کیاہے ساتھ ہی تمام دفاتر میں حاضری یقینی بنانے کے لئے مﺅثر میکنزم کی ہدایات بھی جاری کی ہیں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی طرح یہاں بھی ای ٹینڈرنگ لارہے ہیں ان کاارادہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں پہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کااعزاز بھی اپنے نام کریں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی شکایات پر فوری اورنتیجہ خیز کاروائی کرتے ہیں امید رکھی جانی چاہئے کہ وہ اصلاحاتی ایجنڈے کے ذریعہ محکمہ بلدیات کو عوامی مسائل گھروں کی دہلیز پر حل کرنے کامیکنز م مزید مﺅثر بناکر دکھائیں گے ۔اصلاحاتی ایجنڈے پر تیزرفتار عملدر آمد سے ہی محکمہ بلدیات کو شہری مسائل کے حل میں اپناکردار بھرپور طریقہ سے اداکرنے کے لیے تیار کیاجاسکتاہے وزیربلدیات کو اس ضمن میں کسی قسم کادباﺅ قبول نہ کرنے کاتہیہ کرتے ہوئے کام کرنےوالے افسروں اوراہلکاروں کاسامنے لاناہوگا حقدار کو حق دلاکر پھران سے حکومتی اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت کام کامیابی کےساتھ لیا جاسکتاہے ماضی میں محکمہ بلدیات کو کمائی کاذریعہ بنائے رکھاگیا تھا اگر اکبر ایوب نے اس روایت کاخاتمہ کرڈالا تویہ اس صوبہ کے لوگوں کیلئے ان کاناقابل فراموش کارنامہ ہوگا محکمانہ امور میںبیرونی مداخلت کاخاتمہ بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔