کورونا وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں عالمی وبا کے باعث بڑھنے والی غربت کے منفی اثرات اِس لئے زیادہ محسوس ہو رہے ہیں کیونکہ غربت کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو قرار نہیں۔ اِس سلسلے نے عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کی گئی ہے کہ آئندہ 2 برس تک ’قومی اقتصادی بدحالی‘ کا سلسلہ جاری رہے گا جو غربت و مہنگائی بڑھنے کی بنیادی وجہ ہے۔ کورونا وبا سے نمٹنے کےلئے حکومت کی جانب سے ابتدائی اقدامات کی وجہ سے طلب و رسد کا نظام متاثر ہوا جس کے بعد کئے گئے سمارٹ لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے اگرچہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں لیکن موسم سرما کا آغاز ہونے پر کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں طبی ماہرین کا خدشہ ہے کہ اگر سماجی فاصلہ رکھنے‘ ماسک کا استعمال کرنے اور بار بار ہاتھ دھونے جیسی احتیاط نہ کی گئیں تو دوسری لہر پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ثابت ہوگی جس سے بچنے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاو¿ن کا سلسلہ جاری ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے بالائی اضلاع میں جہاں موسم سرما کا قیام چار سے چھ ماہ رہتا ہے‘ اُن میں بعض تعلیمی ادارے وقفوں وقفوں سے بند رکھے جا رہے ہیں تاکہ کورونا وبا کے پھیلنے کو روکا اور اِس کی طاقت کو کم کیا جا سکے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک کورونا وبا سے بچنے یا اِس کے علاج کی دوائی (ویکسین) ایجاد نہیں کر لی جاتی اُس وقت تک کورونا وبا سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا اور بھلے ہی حکومتی سطح پر جس قدر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں لیکن کورونا کو شکست دینا ممکن نہیں۔ اِس سلسلے میں چین سے آمدہ اطلاعات حوصلہ بخش ہیں جہاں بیرون ملک سفر کرنے والوں کو کورونا سے محفوظ رہنے کے لئے ایک خاص ویکسین (دوائی) دی جاتی ہے لیکن تاحال چین نے اپنی یہ ایجاد دنیا کے سامنے پیش نہیں کی۔ اِسی قسم کی دوائی روس نے بھی تیار کر رکھی ہے‘ جس کے بارے میں صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک عالمی سطح پر فروخت کے لئے پیش کر دی جائے گی۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی ایسی ہی ادویات کا تجرباتی استعمال جاری ہے اور کامیابی کی خبریں مل رہی ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں خاطرخواہ گہرائی و مہارت سے طبی تحقیق نہیں ہو رہی اِس توقعات دوسروں سے وابستہ ہیں‘ کہ وہ کورونا وبا سے بچاو¿ اور اِس کے علاج میں پاکستان کی مدد کریں گے تاہم ایسے کسی نجات دہندہ کے سامنے آنے کے باوجود بھی پاکستان کے اقتصادی مسائل فوری حل نہیں ہوں گے اور اِس بات کو تکنیکی پس منظر کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔عالمی بینک نے پاکستان سے متعلق اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث 9 لاکھ 30 ہزار بچے پرائمری و سیکنڈری مدارج میں تعلیم حاصل کرنے کے عمل سے علیحدہ ہو جائیں گے اور تعداد پہلے سے ’ڈراپ آو¿ٹ‘ کی شرح میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ورلڈ بینک کے بقول جنوب ایشیائی ممالک پر کورونا وبا کے اثرات توقعات سے زیادہ منفی ظاہر ہوئے ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ طرزحکمرانی میں پائی جانے والی خرابیاں ہیں۔ تصور کریں کہ پاکستان میں پہلے ہی سے 2 کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے اور جب اِن میں قریب دس لاکھ بچوں کا اضافہ ہو گا تو کیا حکومت کے لئے آسان ہوگا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو دوبارہ تعلیم کے عمل سے وابستہ کرے اور درس و تدریس کا عمل وہیں سے شروع کرے جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا۔ لمحہ¿ فکریہ ہے اور اِس بات پر جس قدر بھی تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہوگا کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں طلبا و طالبات کی کل تعداد کا 2.4 فیصد تعلیمی اداروں سے باہر ہے۔عالمی بینک نے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو یہ کہتے ہوئے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”کورونا وبا سے دنیا کا ہر ملک متاثر ہوا ہے لیکن جس انداز میں اِس کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے ہیں اور اِن اثرات کا براہ¿ راست تعلق چونکہ درس و تدریس سے ہے اِس لئے فیصلہ سازوں کو اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔“ ذہن نشین رہے کہ جون 2020ءمیں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو منفی 4.4 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ جکو اپنی نوعیت کا ”منفرد اعزاز“ ہے۔ عالمی بینک کے بقول پاکستان میں کورونا وبا سے قبل غربت کی شرح 75فیصد تھی یعنی ہر 100 افراد میں سے 75 کے لئے دو وقت کی روٹی روزگار کا حصول یا اِسے برقرار رکھنا مشکل تھا جبکہ کورونا وبا کے بعد ’معاشی بے یقینی‘ سے دوچار پاکستانیوں کی تعداد بڑھ کر 79فیصد ہو چکی ہے اور یہ نتیجہ خیال حکومت پاکستان کے اپنے جاری کردہ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ تشویشناک خبر یہ ہے کہ (2 نومبر دوپہر ایک بجے تک) ملک کے مختلف ہسپتالوں میں کورونا وبا کی دوسری لہر سے متاثرہ 707 مریضوں کی حالت نازک ہے جبکہ اچھی خبر یہ ہے کہ 24گھنٹوں میں 461 مریضوں کی جسمانی قوت مدافعت کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کورونا وبا سے مصدقہ طور پر متاثر اور بعدازاں صحت یاب ہونے والے معلوم ”تین لاکھ پندرہ ہزار اَفراد“ کے خون سے حاصل ہونے والی ’انٹی باڈیز‘ کے ذریعے دیگر مریضوں کا علاج جاری ہے لیکن اِس تکنیکی علاج کےلئے دستیاب سہولیات اُس صورت میں ناکافی ہو جاتی ہیں جب سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں مریضوں میں اضافہ ہونے لگے۔ صورتحال ہر دن سنگین ہو رہی ہے اور ملک کے وہ حصے جو قبل ازیں کورونا سے نسبتاً محفوظ تھے جیسا کہ دارالحکومت اسلام آباد اور آزاد کشمیر لیکن اِن دونوں مقامات سے کورونا کیسیز اور اِس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ”حالات کا تقاضا“ اِس دانشمندی میں ہے کہ کورونا وبا سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کےلئے حکومتی ہدایات (SOPs) پر (نہ چاہتے ہوئے بھی) عمل درآمد کیا جائے۔ کیونکہ اسی میں کورونا وباءسے نجات پانے اور کامیابی حاصل کرنے کا راز پوشیدہ ہے ایسی صورتحال میں کہ جب وباءمیں ایک طرف دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف ہماری غفلت اور مسئلے کا ادراک نہ کرنا کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے کورونا وباءکی پہلی لہر پر قابو پانے کی جو کامیابی ملی اور جسے عالمی سطح پر سراہا گیا دوسری لہر کا خاطر خواہ مقابلہ نہ کرنا یا اس حوالے سے غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرنا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں۔