زرعی انقلاب

2019-20ءکے اقتصادی جائزہ رپورٹ جو کہ جون 2020ءمیں جاری ہوئی کے مطابق سال اُنیس بیس میں پاکستان کی خام پیداواری ترقی کی شرح 1.91فیصد رہی جو کہ سال اٹھارہ اُنیس میں پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تھی۔ قومی پیداوار میں کمی اُور دوسری طرف مہنگائی کی بلند شرح نے موجودہ بحران کی شدت میں اِضافہ کیا ہے۔ جولائی 2019ءسے اپریل 2020ءکے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی کی اوسط شرح 7.8 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں مہنگائی کی اوسط شرح 8.7 فیصد رہی جو بالترتیب 0.6فیصد اور 1.9فیصد زیادہ ہے۔ مہنگائی کے ساتھ اگر روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوتا تو مہنگائی کے منفی اثرات بڑی حد تک کم ہو سکتے تھے لیکن یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار اِس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بیروزگاری جو پہلے 5.8فیصد تھی مذکورہ عرصے میں بڑھ کر 8.6فیصد ہو چکی ہے۔ یہ معاشی صورتحال گزشتہ مالی سال کی تھی جبکہ موجودہ (جاری) مالی سال میں مارچ سے جون 2020ءتک عرصے میں کورونا وبا کے سبب پورے ملک میں لاک ڈاو¿ن رہا جس کے منفی اثرات معاشی شرح نمو سے لیکر ہر شعبہ¿ زندگی پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ تصور کریں کہ 70 سال کے سفر میں پاکستان کی معیشت نے پہلی مرتبہ ’منفی شرح نمو‘ دیکھی ہے جو رواں مالی سال 2020-21ءکے لئے -0.38 فیصد بتائی جا رہی ہے لیکن اِس پورے مایوس کن ماحول سے خوشخبری اور نوید ’زرعی شعبے‘ کی شرح نمو ہے جو کم تو ہوئی ہے لیکن یہ منفی نہیں ہوئی۔ مالی سال 2019-20ءمیں زرعی پیداوار کی شرح نمو 2.67فیصد تھی جن میں اضافہ متوقع ہے اور اگر حکومت زراعت پر توجہ دیتی تو اِس سے قومی شرح نمو کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے میں مدد مل سکتی تھی لیکن یہاں فیصلہ سازوں نے ’تعمیراتی شعبے‘ کے لئے مراعات کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے اپریل (دوہزاربیس) میں 100 ارب روپے کی امداد (ریلیف) کا غیرمعمولی اعلان سامنے آیا‘ جس سے توقع ہے کہ تعمیراتی شعبہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ضمنی طور پر صنعتوں کی ترقی ممکن بنائے گا اور اِس سلسلے میں فیصلہ سازوں کے سامنے برازیل‘ چین اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں لیکن پاکستان کے مخصوص حالات اور زرعی معیشت و معاشرت میں اگر ’زراعت‘ کو خاطرخواہ توجہ دی جاتی تو اِس کے زیادہ بہتر نتائج اب بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں زرعی انقلاب خواب سے حقیقت بن سکتا ہے اور اگر صرف زیتون (olive) ہی کی کاشت پر توجہ دی جائے جس کے لئے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بشمول ملحقہ قبائلی پٹی موافق آب و ہوا رکھتی ہے لیکن اِس جانب فیصلہ سازوں کی توجہ مرکوز نہیں۔ اب تک 30ہزار ایکڑ پر 2 کروڑ 75لاکھ زیتون کے درخت کاشت کئے گئے ہیں جبکہ یہ کروڑوں میں کاشت ہو سکتے ہیں۔ قومی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیتون کی کاشت کے لئے موزوں علاقہ 1 کروڑ ایکڑ سے زیادہ ہے جبکہ پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان‘ اسلام آباد اور بلوچستان میں مجموعی طور پر صرف 30 ہزار ایکڑ پر زیتون کے درخت لگائے گئے ہیں۔ اُمید ہے کہ سال 2021ءمیں ’پاک اولیوز (Pak-Olive)‘ کے نام سے قومی برانڈ جاری کر دیا جائے گی جس کے لئے ’پاکستان اولیو آئل کونسل‘ تشکیل دی جائے گی جو ’نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ‘ کی زیرنگرانی ملک میں زیتون کی کاشت اور زیتون کے تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔ہدف یہ ہے کہ سال 2024ءتک زیتون کی کاشت میں اِس حد تک اضافہ کیا جائے کہ اِس سے ملک کو 1.727ارب روپے کی آمدنی ہو۔ خیبرپختونخوا میں 9 ہزار 391ایکڑ پر زیتون کی تجرباتی کاشت کی گئی ہے اور اِس مقصد کے لئے وضع کردہ حکمت عملی میں 768 کاشتکاروں کو شامل کیا گیا۔ اُمید یہ ہے کہ 2024ءتک پاکستان میں زیتون میں 30 لاکھ درخت پھل دیں گے جن سے مجموعی طور پر 1ہزار 415 ٹن (قریب ڈیڑھ لاکھ کلوگرام) زیتون کا تیل حاصل ہوگا اور اِس قدر تیل کی قیمت قریب ساڑھے پانچ ارب (4.416 بلین) روپے ہوگی۔ زیتون کے پھل سے تیل کشید کرنے کے لئے خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور بلوچستان میں صنعتوں کا قیام جاری ہے تاہم اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کو جس قدر ترجیح اور اہمیت ملنی چاہئے وہ نہیں دی جا رہی۔ صرف زیتون ہی پاکستان کے قرضوں کی واپسی اور موجودہ معاشی بحرانی صورتحال سے نکال سکتی ہے اور اِس پر جس قدر کم وقت میں زیادہ توجہ دی جائے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔