کسی سرکاری سکول کے پرائمری کلاس کا کوئی طالب علم اگر ژوب کو دیہی سندھ کا علاقہ، سکھر کو بلوچستان کا شہر، ڈیرہ غازی خان کو خیبر پختونخوا کا سرحدی علاقہ اور نوکنڈی کو لنڈی کوتل ضلع خیبر کا نواحی علاقہ قرار دے تو تعجب نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وفاقی حکومت کی کسی اہم وزارت کی طرف سے ضلع چترال کو گلگت بلتستان کا علاقہ قرار دیا جائے تو یقینا تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہوگا کہ ہمارے سرکاری حکام کس ہاتھی کے کان میں بسیرا کرتے ہیں ہوا یوں کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز وانسانی وسائل زلفی بخاری ایک روزہ دورے پر چترال جارہے تھے جہاں انہوں نے امریکہ میں مقیم پاکستانی بزنس مین انور امان کی طرف سے چترال میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر کے منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔ وفاقی وزارت کی طرف سے وزیراعظم کے معاون خصوصی کی سیکورٹی انتظامات کے لئے ایک مراسلہ لکھا گیا جس میں گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس ، ڈپٹی کمشنر گلگت اور سپرنٹنڈنٹ پولیس گلگت کے نام مراسلہ جاری کیا گیا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے دورہ چترال کے دوران ان کی حفاظت اور پروٹوکول کےلئے مناسب انتظامات کئے جائیں۔ مراسلے میں معاون خصوصی کی اسلام آباد سے روانگی، چترال آمد، قیام اور واپسی کا شیڈول بھی درج تھا۔وفاقی اداروں کی غفلت، لاعلمی اور لاپرواہی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اسی سال وفاقی حکومت کی طرف سے سیاحت کے فروغ کےلئے ملک کے مختلف حصوں میں نیشنل پارکس بنانے کا جو اعلان کیا گیا۔ اس میں دنیا کے بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور کو گلگت بلتستان کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ ان واقعات کو کلرکوں کی غلطی یا کمپوزنگ فالٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی ، ڈی سی اور ایس پی کے نام جو مراسلہ کمپیوٹر آپریٹر نے کمپوز کیاتھا یا نیشنل پارکس کے قیام کے حوالے سے جو مسودہ کمپیوٹر میں تیار کیاگیا تھا۔ اس کی کئی افسروں نے پروفنگ ضرور کی ہوگی۔ اتنی بڑی غلطی کسی کو بھی نظر نہیں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال پہلے محکمہ تعلیم کا ایک انسپکٹر کسی دیہاتی سکول کے معائنے کے لئے گیا۔ آٹھویں کلاس میں جاکر انسپکٹر نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ سومنات کا مندر کس نے توڑا تھا۔ بچے نے معصومیت سے جواب دیا کہ میں دو تین دن سے بیمار تھا اور سکول نہیں آیا تھا۔ مجھے پتہ نہیں کہ سومنات کا مندر کس نے توڑا۔دوسرے بچے سے انسپکٹر نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وسیم نے توڑا ہوگا وہ بہت شرارتی ہے آج سکول بھی نہیں آیا۔ انسپکٹر کو بہت غصہ آیا۔اس نے کلاس ٹیچر سے پوچھا کہ آپ کے شاگردوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سومنات کا مندر کس نے توڑا۔ استاد نے جواب دیا کہ جناب کوئی بات نہیں، ٹوٹنے والی چیز تھی ٹوٹ گئی، نیا خرید کر لائیں گے۔ انسپکٹر غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ اور اپنے دفتر آکر ڈائریکٹر کو ٹیلی فون پر سارا واقعہ سنا دیا۔ ڈائریکٹر نے جواب دیا کہ چونکہ یہ علاقہ تمہاری نگرانی میں آتا ہے اس لئے سومنات کا مندر توڑے جانے کا جتنا نقصان ہوا ہے وہ تمہاری تنخواہ سے کاٹی جائے گی۔ہم اس واقعے کو محض لطیفہ سمجھ رہے تھے۔ مگر اب یقین ہوگیا ہے کہ ملک کا انتظام و انصرام چلانے والے حکام میں ایسے بے خبر لوگ موجود ہیں ۔انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ چودہ ہزار پانچ سومربع کلو میٹرپر محیط ضلع چترال رقبے کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پورے پاکستان میں دوسرا بڑا ضلع ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آریائی تہذیب کے پیروکار کالاش قبیلہ چترال میں بستا ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہندوکش رینج کی بلندترین چوٹی تریچ میر چترال میں واقع ہے جسے اب تک صرف ایک بار سر کیاجاسکا ہے۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شندور سٹیڈیم چترال میں واقع ہے۔وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ پاکستان کو وسطی ایشیا اور چین کے ساتھ ملانے والا تاریخی درہ بروغل چترال میں واقع ہے۔وہ اس تاریخی واقعے سے بھی لاعلم ہیں کہ 1898میں انگریز سرکار نے چترال کا علاقہ واخان بفر سٹیٹ بناکر افغانستان کو دیا تھا تاکہ برٹش انڈیا کی سرحد براہ راست سوویت یونین سے منسلک نہ رہے کیونکہ تاجکستان کا سرحدی علاقہ بروغل سے صرف پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور پاکستان کو وسطی ایشیاءسے چترال، بونی، مستوج ، بروغل اور واخان کے راستے تاجکستان سے ملایاجائے گا جنوبی ایشیاءکی طویل ترین ٹنل لواری ٹنل بھی اسی منصوبے کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کو اپنی وزارتوں میں ہونے والی ان سنگین لاپراہیوں کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ ان غلطیوں کی وجہ سے علاقوں کے جغرافیے تبدیل ہوتے ہیں۔ اور قوموں کے درمیان خونریز تنازعات جنم لیتے ہیں اس حوالے سے حد درجہ احتیاط اور دفتری خط و کتابت میں اس طرح کی دانستہ یا نا دانستہ غلطیوں سے احتراز کی ضرورت ہے