اِنٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اِستعمال (انحصار) کا سب سے منفی اَثر ’کتب بینی‘ پر پڑا ہے جس کی بنیادی وجہ رہنمائی کا فقدان اور اُنگلیوں کے اشاروں سے احکامات بجا لانے والے الیکٹرانک آلات ہیں اور اِن دونوں محرکات کے سبب خواندگی میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے جس کا سب سے خطرناک‘ تشویشناک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نوجوان نسل ”سہل پسندی کی وبا“ کا شکار ہو رہی ہے۔ آن لائن وسائل کے سکھ کم اور دکھ زیادہ ہیں کہ اِن کے ذریعے سنجیدہ کام کرتے کرتے پھسل کر غیرمتعلقہ اور تفریحی مواد کی جانب توجہ بٹ سکتی ہے اور یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ بیشتر آن لائن اداروں کی مفت خدمات کا راز اشتہارات ہوتے ہیں‘ جو نہایت ہی خاموشی سے بچوں کو شکار کر لیتے ہیں۔ کسی ایک ایجاد میں دنیا کی ہر شے کا سمٹ آنا تو ممکن بنا دیا گیا ہے لیکن اِس کی وسعت کو غیرمحفوظ بنانے والے محرکات و اسباب کا ازالہ نہیں ہو سکا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہ ہونے کا احساس حاوی ہے۔ کتاب سے محبت اور کسی موضوع پر تحقیق کے عمل میں ”تلاش“ کرنے سے متعلق جستجو باقی نہ رہنا اپنی ذات میں نقصان ہےکیونکہ تلاش و تحقیق کے عمل کو ’گوگل (google) سرچ انجن‘ نے آسان بنا دیا ہے اور اب تو ایسی ٹیکنالوجی بھی موبائل فونز اورکمپیوٹرز کا لازمی حصہ بن چکی ہے جس میں آواز کے ذریعے تلاش اور سوال و جواب ممکن ہوتا ہے جبکہ گھریلو الیکٹرانک آلات جیسا کہ ائرکنڈیشن‘ بجلی کے بلب اور پنکھے وغیرہ آواز کی مدد سے لگائے (آن) یا بند (آف) کئے جا سکتے ہیں۔ کمپیوٹروں پر بڑھتے ہوئے اِس انحصار نے ترقی پذیر ممالک میں زیادہ انتشار پھیلایا ہے کیونکہ یہاں ہر سطح پر بچوں کی رہنمائی کا خاطرخواہ انتظام موجود نہیں۔ والدین سے اساتذہ اور اساتذہ سے معاشرے تک کا کردار محدود نظر آتا ہے جبکہ مذکورہ ہر فریق اپنی ذمہ داری دوسرے کو منتقل کر رہا ہے۔ بچوں کو رٹا لگانے کی مشینیں بنا دیا گیا ہے۔ وہ بچپن جو کھیل کود اور سماجی تعلقات سے سیکھنے سکھانے پر مبنی ہوتا تھا اور جس سے حاصل ہونے والی سمجھ بوجھ سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اچھے بُرے کی تمیز سکھاتی تھی‘ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت“ جیسے تصور نے انسانی معاشرے میں پائی جانے والی اجتماعیت اور قابل بھروسہ سوچ کو بڑی حد تک مفلوج و محدود کر دیا ہے۔ کمپیوٹروں نے جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آسانیاں پیدا کیں ہیں وہیں ’کتب بینی‘ کی عادت صرف اور صرف نصاب تک محدود ہو گئی ہے‘ جس کے باعث علم محدود لیکن معلومات لامحدود ہو چکی ہیں اور آج کے کسی نوجوان کو دنیا بھر کی معلومات ہو سکتی ہیں‘ وہ لمحہ بہ لمحہ ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر رہ سکتا ہے لیکن اگر اُس کے علم و حکمت کو آزمایا جائے اور مطالعے کی کسوٹی پر پیمائش کی جائے تو سوائے تذبذب (غیریقینی) کچھ اور قابل ذکر شمار میں نہیں ہوتا۔آن لائن یعنی ’الیکٹرانک کتب‘ کی تخلیق اور اِن کی بذریعہ اِنٹرنیٹ تقسیم کا سلسلہ ’پورٹیبل ڈاکیومنٹ فارمیٹ (پی ڈی ایف)‘ کے ذریعے شروع ہوا جو سال 1990ءکے اوائل میں امریکہ کے ایک نجی ادارے ’اَڈوبے سسٹمز (Adobe Systems)‘ کی تخلیق تھی۔ کون جانتا تھا کہ جنوری 1993ءسے ونڈوز (Windows) نامی کمپیوٹرز آپریٹنگ سسٹمز (OS) کا حصہ بننے والا ’پی ڈی ایف فارمیٹ‘ مستقبل میں کتب اور اخبارات و جرائد کی تقسیم و مطالعے کا بنیادی ذریعہ بن جائے گا اور اگر سال 2008ءسے عام استعمال ہونے والے ’پی ڈی ایف‘ کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مطالعہ کیا جائے تو کمپیوٹروں سے موبائل فونز تک ’پی ڈی ایف‘ فارمیٹ کی حکمرانی ہے۔ دستاویزات کی تیاری کے اِس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کے ذریعے سینکڑوں یا ہزاروں صفحات کی کتب کو ایک دستاویز (کتابی شکل) میں ڈھالا جا سکتا ہے اور اِس سے وجود پانے والی کتاب میں کسی خاص عبارت تلاش یا کسی خاص باب سے کسی قول کا اِنتخاب اِنتہائی آسان ہو گیا ہے جس کے اِستعمال نے تحقیق کاروں کے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں لیکن یہی جعل سازی کا ذریعہ بھی ہے‘ جس کے بارے میں نوجوانوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ وہ آن لائن کتب سے استفادہ کرتے ہوئے کس طرح ’جعل سازی (plagiarism)‘ سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور ’پلجریزم‘ کی کھوج لگانے والے سافٹ وئر کس طرح اُن کی تحقیق کو مشکوک اور محنت کو رائیگاں کر سکتے ہیں۔ علمی ادبی اور تدریسی حلقوں میں اِس تکنیکی بحث کا آغاز ہونا چاہئے کہ .... طلبا و طالبات کے کتابوں سے ٹوٹے ہوئے رشتے کیسے بحال کئے جائیں؟ یقینا اِس سلسلے میں اردو اخبارات و جرائد کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں‘ جنہیں انگریزی زبان میں ملکی و غیرملکی اشاعتوں کی طرز پر ”کتابوں پر تبصروں“ کو زیادہ سنجیدگی اور زیادہ باقاعدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ ہر دن‘ ایک کتاب اور مصنف کا تعارف اِس سلسلے میں بہترین کوشش (کاوش) ہو سکتی ہے چونکہ اخبارات کی پہنچ بیشتر تعلیمی اداروں تک رہتی ہے اور اگر اشاعتی ادارے قارئین کے ساتھ اپنے رشتے کو ایک نئی جہت سے روشناس کریں تو اِس سے خیر کے متعدد پہلو برآمد ہو سکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کورونا وبا کے باعث 6 ماہ تک (اپریل سے ستمبر) درس و تدریس کا عمل معطل رہنے کے بعد اکتوبر سے جزوی بحال تو ہوا ہے لیکن اِس پر دوبارہ پابندی کے خطرات منڈلا رہے ہیں کیونکہ کورونا وبا کی دوسری لہر کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کو زیادہ شدت سے متاثر کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر بچوں کے مشاغل میں کتب بینی شامل کرنے کی کوششیں کی جائے تو ’لاک ڈاو¿ن‘ ہو یا نہ ہو لیکن خواندگی کا عمل بڑھتا چلا جائے گا۔ طلبہ کے لئے علم کو کشید کرنے (یعنی تحقیق اور موضوعات کی گہرائی میں چھپے مفہوم کی تلاش) کی عملی مشقیں ہم نصابی تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ ہونا چاہیئں۔ تاخیر (کوتاہی) اگرچہ بہت ہوئی ہے لیکن بہتری کے اِمکانات روشن ہیں۔ اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ کتابوں سے دوستی اور مطالعہ کے شوق کوبیدار کرکے کئی طرح سے معاشرے کی خدمت کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے نوجوان نسل میں تعمیری سرگرمیوں کو پروان چڑھانا زیادہ آسانی اور سہولت کے ساتھ ممکن ہے جس کی طرف اب عملی اقدمات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔