گلگت بلتستان کا سیاسی مستقبل

وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی حیثیت دینے کا اعلان کیاہے۔گلگت بلتستان کے 73 ویں قومی دن کی تقریب سے خطاب کے موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ صوبے کا درجہ دینا گلگت بلتستان کے عوام کادیرینہ مطالبہ تھا جسے ہم نے پورا کر دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے۔ اپوزیشن نے گلگت بلتستان میں انتخابات کے موقع پر وزیراعظم کی طرف سے عبوری صوبے کے اعلان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے انتخابی قوانین کے منافی قرار دیا ہے پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن سے وزیراعظم کے اعلان کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے سے متعلق اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کی ہے۔اپوزیشن کو فیصلے پر اعتراض نہیں تاہم وہ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم کی طرف سے اس اعلان سے ناخوش ہے۔شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان تک کا سفر کرنے میں ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے میں مزید پانچ دس سال لگ سکتے ہیں ۔فی الوقت گلگت بلتستان میں صوبائی سیٹ اپ موجود ہے۔ وہاں کا اپنا وزیراعلیٰ، گورنر، چیف سیکرٹری، آئی جی، ہوم سیکرٹری موجود ہے۔ عبوری صوبائی حیثیت ملنے کے بعد گلگت بلتستان کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی ملے گی۔ تاہم اس کےلئے آئین میں ترمیم کرنا دستوری تقاضا ہے۔ قومی اسمبلی کے آنے والے انتخابات کےلئے وہاںحلقہ بندیاں کرنی ہوں گی سینٹ میں اس کےلئے نشست مختص کرنا ہوگا۔ اس خطے پر ماضی میں مسلمانوں، گورکھوں اور سکھوں کی حکمرانی رہی ہے۔ اس دور کی جغرافیائی تقسیم کو بنیاد بناکر رائے عامہ کو کچلا نہیں جاسکتا۔ گلگت بلتستان کے عوام نے خود ہتھیار اٹھاکر قابضین کو مار بھگایا ہے۔ فاتح سکردو چترال سکاوٹس کے شہزادہ متاع الملک کی قیادت میں گلگت اور چترال کے جوانوں نے سری نگر تک کے علاقے کو بھارتی فوج سے خالی کروایا تھا۔ وہاں سے لائی گئی توپیں آج بھی چترال کے شاہی قلعہ میں موجود ہیں۔گلگت بلتستان کو وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق آج سے 73 سال پہلے پاکستان کا پانچواں صوبہ بناناچاہئے تھا۔ماضی میںحکومتوں نے اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ آج عوامی دباﺅ یا سیاسی مفاد کے پیش نظر حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا جو اعلان کیا ہے اس فیصلے پر فوری عمل درآمد بھی ہونا چاہئے۔ پاکستان سے محبت کرنے والی کسی سیاسی جماعت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہو۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اسی پارٹی کی حکومت آتی ہے یہ وہاں کے عوام کا دانش مندانہ فیصلہ ہے۔اس بار بھی اگر گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت بنتی ہے تو یہ وہاں کی سیاسی روایت کا تسلسل ہوگا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اس سیاسی روایت کا بخوبی علم ہے۔ایک دوسرے کو سیاسی طور پر زیر کرنے کا کھیل چلتا رہے گا۔ گلگت بلتستان میں جس پارٹی کو بھی اکثریت مل جائے وہ عوام کا فیصلہ ہوگا جسے قبول کرنا تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے۔ بھارت کی طرف سے گلگت بلتستان کے حوالے سے بیانات کے بعد یہ قومی سلامتی اور ملکی مفادات کا معاملہ بن گیا ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے۔یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے اور یہی گلگت بلتستان کے عوام کے مفاد میں ہے۔