خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز‘ میں داخلوں کے خواہشمند طلبا و طالبات‘ اِن کے والدین اور اساتذہ میں اِس بات کو لیکر تشویش پائی جاتی ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ امتحان (انٹری ٹیسٹ)‘ کے ذریعے داخلوں کے لئے جاری کردہ نئے قواعد کی رو سے ’ڈومیسائل‘ کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ یہ قواعد طب کی تعلیم کے نگران ادارے ’پاکستان میڈیکل کونسل‘ نے مرتب اور جاری کئے ہیں۔ ڈومیسائل ختم ہونے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے دوسرے صوبے کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلہ لے سکیں گے اور خیبرپختونخوا کے طلبا و طالبات میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اِس طرح اُن کی حق تلفی ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا میں طب کی تعلیم کے تعلق رکھنے والے اساتذہ (سینئر ڈاکٹروں‘ پروفیسروں) کی جانب سے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ ’میڈیکل کونسل‘ کے ڈومیسائل سے متعلق فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اپنی تشویش سے بروقت آگاہ کرے۔ اندیشہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی آبادی زیادہ ہے اور چونکہ وہاں سے داخلے کے خواہشمند طلبا و طالبات کی اکثریت (بڑی تعداد) کو سرکاری و نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلے نہیں ملتے اِس لئے وہ دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں اور ایسی صورت میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کے طلبا و طالبات کی حق تلفی ہو سکتی ہے۔ ڈومیسائل کی شرط ختم کرنے سے طلبہ کی اہلیت کا جو مقابلہ سامنے آیا ہے اُس سے نمٹنے کے لئے خیبرپختونخوا کو دو طریقوں سے اصلاحات کرنا ہوں گی کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ ڈومیسائل کی شرط کو ہمیشہ کے لئے برقرار رکھا جا سکے اور ہر مرتبہ گورنر اور وزیراعلیٰ کی مداخلت سے اِس شرط کو بحال کیا جاسکے۔ پہلی ضرورت خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں کا معیار کم سے کم پنجاب کے تعلیمی اداروں کے مساوی لانا اور بعدازاں اُسے بہتر بنانا ہے جبکہ دوسری ضرورت سرکاری سطح پر ’میڈیکل ڈینٹل‘ یا ’انجینئرنگ‘ میں داخلوں کے لئے کوچنگ مراکز قائم کرنے ہیں۔ اِس سلسلے میں آن لائن‘ ٹیلی ویژن اور ایف ایم ریڈیو وسائل کے ذریعے کوچنگ بھی ممکن ہے۔ مرحلہ¿ فکر یہ ہے کہ جب کسی طالب علم سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بذریعہ بورڈ لے لیا جاتا ہے اور نتائج اعلان کر دیئے جاتے ہیں تو اِس کے بعد کسی انٹری ٹیسٹ کی ضرورت اور گنجائش کیوں رکھی گئی ہے؟ کیا بورڈ کے امتحانات کافی نہیں اور اگر کافی نہیں تو اُنہیں کافی (اہلیت جانچنے کا مکمل پیمانہ) کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انٹری ٹیسٹ کی بھاری فیسیں اور طلبہ و طالبات پر اِن کی تیاری کے لئے نفسیاتی بوجھ کے بارے میں بہت کم سوچا اور غور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا طالب علم جو کسی دور دراز دیہی علاقے سے ایک دن پہلے انٹری ٹیسٹ کے امتحانی مرکز والے شہر پہنچتا ہے۔ آمدورفت کا کرایہ ادا کرنے کے علاوہ قیام و طعام کے اخراجات بھی اُسے برداشت کرنے پڑتے ہیں جبکہ اُس کے اعصاب پر انٹری ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے کا دباو¿ بھی بنا رہتا ہے اور ہر طالب علم اتنا خوش قسمت بھی نہیں ہوتا کہ اُس نے کسی کوچنگ سنٹر سے تربیت حاصل کر رکھی ہو تو کیا دیہی (نسبتاً پسماندہ) علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کا مقابلہ شہری علاقوں کے رہنے والے طالب علموں سے کروانا ’جائز‘ ہے؟ قومی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح ہم نے اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کی مشینیں بنا دیا ہے اور کس طرح اُن کے سوچنے سمجھنے اور تعلیم کے علم سے متعلق رجحانات کا تعلق صرف اور صرف ’اِمتحانات میں کارکردگی (نمبروں کے حصول)‘ تک رہ گیا ہے۔ کیا تعلیم کا مقصد‘ مدعا اور حاصل صرف یہی رہ گیا ہے کہ بچوں کو ”اِمتحان در اِمتحان“ آزمائشوں کے عمل (بھٹی) میں جھونکا جائے؟ طلبا و طالبات کی نظر سے پورے تعلیمی و امتحانی نظام کو دیکھنے (نظرثانی) کی ضرورت ہے اور اِس پوری صورتحال میں طالب علموں سے بات چیت کرنے کی کمی نہایت ہی شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ قومی و صوبائی سطح پر تعلیم کے عمل کو آسان اور قیمت کے لحاظ سے صرف خواص کے موافق نہیں بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کےلئے بھی قابل برداشت بنانے پر غور ہونا چاہئے۔