مہنگائی کا بے قابو جن

حکومت نے ملک میں صنعتی پیداواراور برآمدات میں اضافے کے حوالے سے صنعتوں کے لئے بجلی کی پیک آور قیمت ختم کرنے اور 25 فیصد اضافی بجلی کے استعمال پر قیمتوں میں خصوصی رعایت دینے کا اعلان کیا ہے ‘یکم نومبرسے چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کےلئے معمول سے زیادہ بجلی کے استعمال پرآئندہ برس جون تک 50 فیصد رعایت دی جائے گی‘ آئندہ 3 سالوں تک ہر قسم کی صنعت کےلئے 25 فیصد کم قیمت پر اضافی بجلی فراہم کی جائے گی ‘صنعتوں کےلئے اب پورا وقت آف پیک آور تصور کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر عمر ایوب نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہماری70فیصد بجلی درآمدی ایندھن پر بن رہی تھی اس کے برعکس ہمارے پاس وہ سارے وسائل موجود ہیں جن سے سستی بجلی بنائی جاسکتی ہے سابقہ حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کےساتھ 24روپے فی یونٹ کا معاہدہ کیا تھا ہم نے وہی معاہدے ساڑھے 6 روپے فی یونٹ پر کئے ہیں2 برسوں میں ہم نے متبادل قابل تجدید بجلی کےلئے منصوبہ بنایا جس کے تحت 2025ءتک ہماری 25 فیصد بجلی کی پیداوار قابل تجدید توانائی سے ہوگی‘صنعتی شعبے کےلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی سے پیداوار میں اضافے ، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے اور برآمدات بڑھنے کے امکانات ہیں ‘ توانائی کے قابل تجدید منصوبوں پر عمل درآمد کے بعد گھریلو صارفین کے لئے بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی ضروری ہے تاہم یہ طویل المعیاد منصوبے ہیں جس سے ملک کو آگے چل کر فائدہ ہوگا حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لئے بھی مراعاتی پیکج کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد تعمیروترقی کے منصوبوں کو فروغ دینا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ حکومت نے پانچ سالوں میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کررکھا ہے ‘ظاہر ہے کہ ایک کروڑ سرکاری ملازمتیں لوگوں کو نہیں دی جاسکتیں‘ سرمایہ کاری کے فروغ، صنعتوں کو مراعات دینے اور گھریلو صنعتوں کو ترقی دے کر ہی ملازمت کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں ‘حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اور فوری اقدامات کرنے ہوں گے‘ مہنگائی ملک کے بائیس کروڑ عوام کا مشترکہ اور اولین مسئلہ ہے‘ موجودہ حکومت کے دو سالہ دور اقتدار کے دوران ہزاروں افراد کو روزگار مل چکا ہے تاہم لاکھوں لوگوں کا روزگار چھن بھی چکا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں پانچ سو فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔ تین سو روپے والا موٹا گوشت ساڑھے پانچ سو، چکن 110روپے سے 211روپے کلو ہوگیا‘ پیداواری سیزن میں بھی غریبوں کا کھاجہ آلو 20روپے کلو کے بجائے 120روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے ٹماٹر کی فی کلو قیمت140، بھنڈی150، ٹینڈے100، توری110، پیاز100، کدو90، بینگن80، لہسن400اور ادرک600کلو فروخت ہورہے ہیں مسور کی دال 160، ماش کی دال240اور چنے کی دال140روپے کلو فروخت ہورہی ہے ‘غریب آدمی کےلئے گھر میں دال اور سبزی پکانا بھی عیاشی کے زمرے میں آگیا ہے‘ بازاروں میں سرکاری نرخ نامہ نظر آرہا ہے نہ ہی سرکاری حکام ملاوٹ کی روک تھام ، ذخیرہ اندوزی اور گران فروشی کے خلاف حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اخراجات بھی ہر سال بڑھتے جارہے ہیں کورونا لاک ڈاﺅن کے دوران سات مہینے تعلیمی ادارے بند رہے پرائیویٹ سکولوں نے نہ صرف سات مہینوں کی فیسیں والدین سے وصول کیں بلکہ ٹرانسپورٹ کی فیس اور سالانہ اخراجات بھی والدین سے بٹورے جارہے ہیں مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔