خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں پر مشتمل ”ہزارہ ڈویژن‘ ‘کے سیاحتی مقامات کی مقامی و غیرمقامی آبادی کو پانی کی شدید و دیرینہ قلت کا سامنا ”معمول‘ ‘بن چکا ہے اور یہ بات بھی معمول ہے کہ اِس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ اور یقین دہانیاں وقتاً فوقتاً جاری ہوتی رہیں! لمحہ¿ فکریہ ہے کہ سال کا کوئی بھی موسم ہو‘ جنت نظیر وادیوں کی سیروسیاحت کےلئے آنے والوں سے لیکر مقامی لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں‘ ملکہ کوہسار کہلانے والی مری کی آباد کاری اور اِس کی شہرت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہاں خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات (گلیات) کی طرح پانی کی قلت نہیں جبکہ مری کا اپنا پانی نہیں اور اُس کا انحصار آج تک خیبرپختونخوا کے پانی پر ہی ہے‘ وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور خیبرپختونخوا کے سیاسی و بلدیاتی نمائندوں نے پانی کی تقسیم کے اِس نظام پر سوال اُٹھائے اور پنجاب سے مطالبہ کیا کہ وہ خیبرپختونخوا سے حاصل ہونے والے پانی کی کم سے کم قیمت ادا کرے کیونکہ مری کی میونسپلٹی پانی کی قیمت صارفین سے وصول کرتی ہے۔ اب یہاں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں(ڈونگا گلی‘ خیرا گلی اور ایویبہ) کے چشموں سے پانی جمع کر کے ”مری“ کو فراہم کیا جاتا ہے اُن کے علاوہ اِس علاقے میں پانی کا کوئی دوسرا ایسا ذریعہ بھی نہیں کہ جس سے آبنوشی کی حسب آبادی کفالت و کفایت ہو سکے اور نہ ہی خیبرپختونخوا مری کو فراہم ہونے والا پانی روک سکتا ہے کہ اِس پانی پر تو پہلا حق مقامی آبادی کا ہے۔ایبٹ آباد کے ضلعی منتخب بلدیاتی نمائندوں نے کئی مرتبہ اِس مسئلے کو صوبائی اور قومی سطح پر اُٹھایا لیکن تاحال اِس کا کوئی بھی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا‘ جس سے گلیات کے پانی پر مقامی آبادی کا پہلا حق تسلیم کروایا جا سکتا۔ اِس سلسلے میں گلیات میں تعمیروترقی اور سہولیات کی فراہمی کے نگران ادارے ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے ذرائع نے خوشخبری دی ہے کہ ”خیبرپختونخوا حکومت نے پنجاب کی صوبائی حکومت سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور گلیات سے مری کو فراہم ہونے والے پانی کی قیمت اور بقایا جات وصول کئے جائیں گے‘ گلیات اور ایبٹ آباد کے رہنے والوں کو پانی کی فراہمی میں کشش ثقل کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی بالائی علاقے جہاں قدرتی طور پر پانی کے چشمے ہیں وہاں سے ’گریوٹی فلو‘ کے اصول پر پانی کی پائپ لائن بچھا کر پانی فراہم ہوتا ہے اور اِسی اصول پر مری کو بھی پانی فراہم کیا گیا ہے‘ جس کے لئے ڈونگا گلی نامی گاو¿ں میں 2 بڑی ٹینکیاں بنائی گئی‘ جہاں پانی کو پہلے ذخیرہ اور پھر مری کو بذریعہ پائپ لائن فراہم کیا جاتا ہے ۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطالعے و تحقیق سے خیراگلی‘ ایویبہ خانس پور اور ڈونگا گلی کی مقامی و سیاحتی آبادی کے لئے پانی کی یومیہ ضرورت کا تخمینہ 2 لاکھ 82 ہزار گیلن لگایا گیا ہے جبکہ مشکپوری میں موجود پانی کے تین ذخیروں سے مجموعی طور پر یومیہ 90لاکھ گیلن پانی حاصل کیا جا سکتا ہے یعنی پانی کی کمی نہیں لیکن اگر خیبرپختونخوا کے پاس مالی وسائل ہوں تو وہ زیادہ بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ اور اِس کی ترسیل کا وسیع نظام مرتب کر سکتا ہے۔ فی الوقت 10 ہزار گیلن کا ایک ٹینک بنایا گیا ہے جو ناکافی ہونے کے ساتھ اُسے ہر وقت بھرے رکھنے کے لئے پانی لانے کا نظام خاطرخواہ وسیع نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مذکورہ علاقوں میں مقامی آبادی سارا سال ہی پانی کی قلت سے دوچار رہتی ہے جبکہ بالخصوص جب سیاحتی سیزن میں پورے ملک اور بیرون ملک سےاح گلیات کا رخ کرتے ہیں تو پانی کی قلت زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔