کہتے ہیں کتّے کی دم کوکتنا ہی سیدھا کرنا چاہو،ٹیڑھی ہی رہے گی۔ یہی حال اسلام ‘مسلم دشمن ممالک اور قوموں کا ہے جو دشمنی میں فائدے، نقصان کی تمیز کھوبیٹھتے ہیں۔بعض مغربی ممالک میں انتہا پسند اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کررہے ہیں، سچ یہ ہے کہ اس گستاخی میں وہاں کی حکومتیں براہ راست ملوث ہیں انہیں اسلاموفوبیا کی بیماری لگ چکی ہے ، افسوس اس بات کا ہے کہ فرانسیسی صدر انتہا پسندوں کو سزا دینے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں وہ دنیا کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں سو اس لحاظ سے انہیں لیڈر نہیں کہا جاسکتا ، لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو دنیا کو تقسیم نہ ہونے دے خاص کر مذہبی معاملات کے بگاڑ کووہ باہمی مکالمہ کے ذریعے حل کرتاہے اگرا ن کی سوچ یہی رہے تو آنے والے دنوں میں خود ان کا ملک مذہبی تنازعات کا شکار ہوگا جس کے نتیجہ میں وہاں خلفشار اور انتشار پیدا ہوگا نیز اسلام مخالف اقدامات کو روک کر ہی دنیا میں امن کا قیام ممکن ہے عالم اسلام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے گستاخانہ بیانات نے کیا۔ جس پر چند مسلم ممالک کے لیڈروں نے سخت ردعمل کا اظہارکیا۔ بقیہ نے دبے لفظوں میں مذمت کی یا اس کی ضرورت نہ سمجھی لیکن ان کے عوام سڑکوں پر اتر آئے اور فرنچ مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ گیا اس سے پریشان ہوکر میکرون نے کارٹونوں سے مسلم دنیا کے پہنچنے والی تکلیف اور برہمی پر تاسف کااظہار کیا لیکن یہ بھی کہا کہ اسے تشدد کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔ اس سے کسی کی تشفی نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کا غصہ قتل کے بعد دیئے گئے میکرون کے بیانوں پر تھا جس میں انہوںنے آزادی اظہار کے نام پر خاکوں کی اشاعت کو جائز قراردیا اوراس کی حمایت پر مصر رہے۔ اسلام کو بحران زدہ بتانا اور انتہا پسند اسلام سے لوہا لینے کا عزم مسلمانوں کو ناگوار گزرا۔ ہماری دانست میں اسلام سے متعلق ان کی معلومات ناقص ہیں یا لاعلمی کا غماز ہیں۔ اگرانہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہوتا تو پتہ چلتا کہ اسلام انتہا پسند نہیں، انتہائی اعتدال پسند مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات آفاقی ہیں اور غوروفکر اور اجتہاد کے ذریعے ہر دور کے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لئے میکرون اسلام کی جگہ اگر مسلمان یا عالم اسلام کے الفاظ استعمال کرتے تو بہتر ہوتا۔ آج اسلام نہیں مسلم دنیا بحران میں مبتلا ہے۔ مسلمان جب تک اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے س±رخرو رہے، روگردانی کی توتباہی و بربادی اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گئی فرانسیسی صدر نے دین اسلام کو سمجھے بغیر اسلام اور ہمارے پیارے نبی کو ٹارگٹ کیا اگر انہوں نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ کبھی انتہا پسندوں کا ساتھ نہ دیتے اس لئے کہ اسلام کا نام ہی امن سے معروف ہے اسلام امن اور سلامتی کو تلقین کرتا ہے وہ مسالک اور عقائد کے احترام کا درس کرتا ہے ، گزشتہ کئی سالوں سے دنیا کے بعض ممالک میں اظہار آزادی کی آڑ میں اسلام مخالف مہم اور نبی کی شان میں گستاخی کی ناپاک مہم جاری ہے، بعد میں اس ناپاک جسارت سے اسلام کی بجائے خود انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہوگا اور خود ان ممالک میں لڑائی جھگڑوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو جب بھی اسلام اور ہمارے پیارے نبی کی شان میں گستاخی کی مکروہ مہم چلائی جاتی ہے تو اس وقت مسلمان ایک پیج پر آجاتے ہیں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایسی مذموم مہموں کے دو ران ہر اسلامی ملک میں مختلف مسالک اور عقائد کے لوگ متحد ہوکر میدان میں آجاتے ہیں اور یہ اپنے سب اختلافات بھلا کر اتفاق کا ایسا عملی مظاہرہ کرتے ہیں جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ یورپ اور مغربی بعض ملکوں کے حکمران اسلاموفوبیا کے چکر سے نکل کر نسل پرستانہ نظریات کو ترک کرکے تمام مذاہب کی تعظیم و احترام کی راہ اپنائیں، اس سے عالمی امن کا قیام ممکن ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے مذاہب کے مابین مکالمہ کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔مقدس ہستیوں کی توہین ، مذاہب کی تضحیک آزادی اظہار نہیں، مذہبی منافرت کرائسٹ چرچ جیسی دہشت گردی کی اصل بنیاد ہے پر امن بقائے باہمی کے لئے مل کر کام کرنا ناگزیر ہے۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ یورپی اور مغربی حکمران اور ان کے عوام اسلام سمیت تمام مذاہب کے عملی احترام کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تاکہ مذہبی منافرت کاماحول ختم ہو۔اس میں ان سب کی بقاءہے اور مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت کی فضاءختم ہوگی۔ فرانس ایسا ملک ہے جس میں سارتر اور روسو جیسے مفکرین نے اپنے ملک اور معاشرے کو سب کے لئے جائے امان بنانے کا پر چار کیا تھا لیکن آج اسی فرانس میں مسلمانوں کو آزادی رائے کے نام پر دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے فرانس کا شمار آج ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مسالک اور عقائد کی جنگ بھڑکارہے ہیں خصوصاً دین اسلام اور پیغمبر اسلام کو ٹارگٹ کرنا انہوں نے اپنی اولین ترجیح بنا لیا ہے، ہمارے نزدیک یہ ان کی خام خیالی ہے مسلمان ہر چیز برداشت کرسکتے ہیں لیکن اسلام اور پیارے نبی کی شان میں گستاخی کو قطعاً برداشت نہیں کرسکتے اس لئے ان ممالک کو اس حوالہ سے اپنی موجودہ اسلام دشمنی کی سوچ کو ترک کر دینی چاہئے بصورت دیگر مسلمانوں کی طرف سے بھی شدید ترین ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا کوئی معمولی بات نہیں ہے وزیر اعظم عمران خان نے مسلمان حکمرانوں کو خط لکھ کر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی کی ہے آزادی اظہار کی آزادی اظہاررائے کی آڑ میں مسلمانوں کی توہین نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ رسولپاک کی ذات کی حرمت مسلمانوں کے لیے بہت اہم معاملہ ہے ، اس بات کو یورپی اور مغربی ممالک کو سمجھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخانہ مواد کی تشہیرکی مذمت کرتے ہیں ‘ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے گستاخانہ خاکوں کو معاملہ پر عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس اور جامع الزہر قاہرہ سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان بروقت ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ کاوش کامیاب ہوگی۔