کچھ لوگ وقت کے انتظار میں ساری عمر گزار دیتے ہیں ‘کچھ لوگ اٹھ کھڑے وتے ہیں ‘لگن اور محنت سے اپنی تقدیر بدل ڈالتے ہیں ‘دنیا کے سب سے کم عمر ترین ارب پتی جس کی عمر محض 26 سال ہے کی کہانی بھی محنت ‘ لگن اور جذبے کی کہانی ہے ‘رتیش اگروال کا تعلق بھارت کے ایک چھوٹے سے شہر ریاگدا سے ہے ‘سات سال پہلے اس کی جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ فلیٹ کا کرایہ ادا کر سکے ‘ رتیش ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا 18 سال تک غربت کی زندگی گزاری ‘ غربت کی وجہ سے وہ یونیورسٹی نہ جا سکا یہی وہ وقت تھا جب زندگی کا ایک ایک پل اس کے لئے مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا تھا ایک دن اچانک اس کوخیال آیا کہ اس کے نزدیک واقع ہوٹل کا کاروبار کچھ زیادہ اچھا نہیں چل رہا اس کا منصوبہ تھا کہ اس ہوٹل کو شراکت پر چلا کر کاروبار کا آغاز کیا جائے یہ اتنا آسان نہ تھا مگر اس نے ہوٹل کے مالک کو اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ ہوٹل میں چند معمولی تبدیلیاں لا کر اس کی آمدنی کو بڑھا سکتا ہے ایک 19 سالہ لڑکے پر اعتماد کرتے ہوئے مالک نے اس کو اجازت دی ‘ رتیش نے ہوٹل کا رنگ و روغن کرایا ‘ بلب اور بستر تبدیل کئے ٹھنڈے پانی کی بوتل اور دوسری معمولی ضروریات فراہم کیں اور روم سروس کے لئے انٹر کام کا بندوبست کرنے کے بعد اس نے کمروں کی اچھی تصویریں بنوائیں اور انٹرنیٹ پر ڈال دیں ساتھ ہی اس نے ہوٹل کا نام تبدیل کر دیا ہوٹل کو کامیاب کرنے کے لئے وہ لوگوں کے پاس گیا پمفلٹ تقسیم کئے ‘ انٹرنیٹ پر بیچز بنوائے اس کی محنت رنگ لانا شروع ہوئی اس کا کاروبار چند ہفتوں میں ایسا چلا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لوگ جوق در جوق اس کے ہوٹل آنا شروع ہوئے اگلے سال اس نے سرمایہ کاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کیں21 سال کی عمر میں اس کے پاس 50 ملازم کام کرنے لگے تھے ‘22 سال کی عمر میں وہ 500 کمروں سے زائد کے کئی ہوٹلوں کا مالک بن چکا تھا اس کی محنت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی پیسہ اس کے پاس آنے لگا تھا لیکن وہ آگے بڑھنے سے اب رکنے کے موڈ میں نہیں تھا ‘24 سال کی عمر میں اس کا سرمایہ ایک ارب ڈالر یعنی170 ارب پاکستانی روپے تک پہنچ گیا تھا یہ 7 سالوں کا سفر محض ایک خواب یا کوئی افسانوی فلم لگتا ہے لیکن یہ بالکل ایک اٹل حقیقت ہے آج 26 سال کی عمر میں رتیش دنیا میں ہوٹل کی دوسری بڑی چین کا مالک ہے اس کے دنیا بھر میں قائم رویو ہوٹل کے 43 ہزار کمرے روزانہ ہزاروں مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں ساڑھے تین لاکھ افراد اس کے مختلف ہوٹلوں میں ملازمت کرتے ہیں رتیش کی کہانی ایک عام کہانی نہیںصرف7 سال میں غربت سے کھرب پتی بننے کا سفر محنت ‘ عزم ‘ لگن اور جذبے کی کہانی ہے ‘ رتیش اس وقت نہ صرف ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوٹلوں کا مالک ہے بلکہ ملائیشیا‘ دبئی ‘ نیپال ‘ چین ‘ برازیل‘ برطانیہ‘ جاپان ‘ سعودی عرب ‘ سری لنکا ‘ انڈونیشیا اور امریکہ میں اس کے بے شمار ہوٹل ہیں رتیش جیسے لاکھوں نوجوان ہمارے ملک میں اور دنیا بھر میں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں کوئی نوکری تلاش کر رہا ہے کوئی یورپ اور عرب ممالک جانے کے چکر میں ہے کوئی غلط دھندے کی کوشش میں لگا ہے کیونکہ حلال حرام کی تمیز اب ختم ہو رہی ہے مگر دل سے محنت اور آگے بڑھنے کا جذبہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے ہم شروع ہی سے کم اور چھوٹا ٹارگٹ سیٹ کرتے ہیں اور پھر محنت کی بجائے وقت ضائع کرتے ہیں جس کی وجہ سے کامیابی مشکل ہو جاتی ہے ایک غریب علاقے کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا رتیش نہ تو بڑی ڈگری لے کر آیا تھا نہ ہی اس کے خاندان کے تعلقات تھے نہ ہی اس کے پاس سرمایہ یا سفارش اس نے جو کرنا تھا وہ اپنی محنت اور لگن سے کرنا تھا اور اس والی بات کہ آپ جتنی محنت کریں گے آپ کے دن بدلنے کے امکانات اتنے بھی زیادہ ہوتے جاتے ہیں چھ سات سال میں خالی جیب سے ارب پتی بننے کے سفر کا شاید ہمارے نوجوان خواب بھی نہیں دیکھ سکتے مگر اس بات پر عمل ضرور کر سکتے ہیں کہ اگر محنت کی جائے اور ٹارگٹ بڑا رکھا جائے تو کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے ہمارے نوجوانوں کےلئے ضروری ہے کہ تعلیم ‘ کاروبار اور دیگر معاملات میں یہ بات یاد رکھیں کہ صرف اپنی قسمت خراب ہونے ‘غریب خاندان سے تعلق رکھنے اور بڑے خاندان اور سرمایہ داروں سے تعلقات نہ ہونے کا رونا رونے کی بجائے سچے دل سے جذبے اور لگن سے ہر میدان میں دل لگا کر محنت کریںتو چند سال میںکامیابی ان کا مقدر ہو گی۔ بہتر تعلیم ‘ فضول محفلوں میں وقت ضائع نہ کرنا ‘صرف حلال کے لئے دوڑ دھوپ کرنا‘ نت نئے کاروبار اور مواقع آزمانا ‘صرف نوکری کے پیچھے لگے نہ رہناکامیابی کی نشانیاں ہیں کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر ارب پتی کامیاب انسان ہفتے میں کم از کم92 گھنٹے محنت کرتا ہے ‘آپ کتنی محنت کرتے ہیں کامیابی کا انحصار اس پر ہے ۔