شبیرامام
سرکل بکوٹ خیبرپختونخوا کا پنجاب اور آزاد کشمیر کی جانب سے ’گیٹ وے (gateway) علاقہ‘ ہے اور یہاں سے داخل ہونے والا کا خیبرپختونخوا کی سڑکوں اور دیہی علاقوں کو دیکھ کر ملنے والا پہلا تاثر زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا۔ پشاور سے ڈونگا گلی 230کلومیٹر‘ اِیبٹ آباد سے 40 کلومیٹر‘ نتھیاگلی سے 6 کلومیٹر جبکہ مری (پنجاب) سے فاصلہ 30 کلومیٹر ہے۔ اَیویبہ سے ڈونگا گلی یا ڈونگا گلی سے ایوبیہ براستہ پائپ لائن کا کل فاصلہ 12کلومیٹر ہے اور اِن دو مقامات کے درمیان پہاڑوں کے درمیان اِس راہداری (ٹریک) کو ’پائپ لائن ٹریک‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہی پائپ لائن ہے‘ جس کے ذریعے ڈونگا گلی (خیبرپختونخوا) سے مری (پنجاب) کو پانی فراہم کیا جاتا ہے اگر یہاں بھی کچھ سرمایہ کاری کی جائے تو گلیات کے سیاحتی مقامات کی معلومات عام کی جائیں تو اِس سے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا جا سکے گا۔ ’پائپ لائن ٹریک‘ بنانے میں قدرتی ماحول سے زیادہ چھیڑچھاڑ نہیں کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ اِس راہداری کے آس پاس (گردوپیش) میں تاحدنظر قدرتی ماحول کے نظارے کئے جا سکتے ہیں تاہم 1: پرپیچ راستوں کی کشادگی و مرمت۔ 2: شمسی توانائی کی تنصیب‘ متبادل توانائی سے روشنی (سٹریٹ لائٹس) کا بندوبست۔ 3: بارش سے بچنے یا سستانے کے لئے سایہ دار مقامات (ہٹس) کی تعمیر‘ جہاں ایمرجنسی فون کال کی سہولت ہونی چاہئے۔ 4: موبائل فون سگنلز اور اِنٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی۔ 5: کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے راہداری کی نگرانی اور 5: راہداری پر مختلف جگہوں کو ’پکنک سپاٹس‘ کے طور پر مختص کرنے جیسی سہولیات فراہم کر کے سیاحت کے تجربے زیادہ یادگار بنایا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں ایویبہ سے 400 میٹر کے فاصلے پر ”129 سالہ پرانی سرنگ“ کا سراغ لگا کر اُسے بحال کیا گیا ہے۔ یہ سرنگ برطانوی راج کے دوران 1891ءمیں تعمیر ہوئی تھی‘ جسے ’موٹو ٹنل (Moto Tunnel)‘ کہا جاتا ہے جو نتھیاگلی سے قریب 10کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور گلیات کے سیاحتی مقامات میں خوبصورت اضافہ ہے۔240 فٹ لمبی‘ 4 فٹ چوڑی اور 6 فٹ اُونچی سرنگ پتھروں اور گارھے سے بنائی گئی ہے۔ اِس سرنگ کے بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ڈونگا گلی سے مری کا فاصلہ کم کیا جائے اور اِس خاص مقام پر کہ جہاں بارشوں کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی اور تودے (لینڈ سلائیڈنگ) اکثر رہتی ہے‘ جس سے مذکورہ پائپ لائن کو بچانے کے لئے سرنگ بنائی جائے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اِس سرنگ میں مٹی بھرتی رہی اور یہ بالآخر بند ہو گئی تھی‘ جسے منہدم ہونے سے بچانے اور بحال کرنے کے لئے کی گئی محنت رنگ لائی ہے۔ مذکورہ ’موٹو سرنگ‘ اَیویبہ اور ڈونگاگلی کو ملاتی اور یہ اِن دونوں مقامات کے درمیان پیدل سفر کرنے کا کم ترین راستہ بھی ہے۔ انگریز دور میں بنائے گئے ’پائپ لائن ٹریک‘ کی ابتدا¿ میں کل لمبائی 4 کلومیٹر تھی جسے بعدازاں 12 کلومیٹرز کیا گیا تھا اور اب بھی اِس کی لمبائی میں اضافے کا امکان موجود ہے کہ نجی شعبے کی شراکت داری سے ’پائپ لائن ٹریک‘ کو ایوبیہ سے مری تک وسعت دیدی جائے تو اِس خیبرپختونخوا آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیاحتی مقامات پر صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے مقابلوں کا انعقاد کر کے بھی سیاحوں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی گلیات میں سیاحتی ترقی (بہتری) کے ”لاتعداد اِمکانات“ موجود ہیں‘ جن سے ”لامحدود فوائد“ حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن اگر ’تن تنہا فیصلوں کی بجائے نجی شعبے کی شراکت کو شامل حال کر لیا جائے۔