کورونا وبا کی دوسری لہر اور کسی وبائی مرض کے پھیلنے کے لئے موافق موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے جو نئی ہدایات (SOPs) جاری کئے ہیں اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ماسک نہ پہننے والوں کو جرمانہ کیا جائے گا تاہم ملک کے مختلف حصوں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق چاروں صوبوں میں عوام کی اکثریت ماسک پہننے سے متعلق حکومتی اعلان اور جرمانے جیسے امکانی خطرے کی پرواہ نہیں کر رہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں ماسک نہ پہننے والوں کے خلاف کاروائیاں ہوئی ہیں‘ اِن میں سرفہرست فیصل آباد (پنجاب) ہے‘ جہاں پولیس ماسک نہ پہننے والوں کو دستی آلات کی مدد سے کرنٹ دیتی ہے اور سوشل میڈیا پر اِس قسم کی فوری سزا سے متعلق حیرت و تعریف کا ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ مغربی ممالک میں پولیس اِس قسم کے آلات کا استعمال کرتی ہیں جنہیں بیٹری کی مدد سے چلایا جاتا ہے اور اِس سے کسی شخص کو چند سیکنڈز تک ’ہائی وولٹیج کرنٹ‘ دےا جاتا ہے جس سے وہ مزاحمت کے قابل نہیں رہتا اور پولیس اُسے باآسانی گرفتار کر لیتی ہے۔ مغربی ممالک میں خواتین اپنے خلاف تشدد اور حملوں کو ناکام بنانے کے لئے بھی اِسی قسم کے آلات اور کیمیائی محلول والے سپرے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھ رکھنا نہیں بھولتی جو باآسانی دستی بیگ میں سما جاتے ہیں اور انہیں پاس رکھنے کے لئے اسلحے کی طرح کسی بھی قسم کا اجازت نامہ (لائسنس) لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں کرنٹ دینے والے آلات گزشتہ کئی برس سے مارکیٹ میںدستیاب ہیں جو بیٹری (ٹارچ) کی شکل میں ہوتے ہیں اور انہیں الیکٹرک شاکر کہا جاتا ہے۔ عوام کو ماسک پہنانے اور مو¿ثر پولیسنگ کے لئے اِس آلے کے استعمال کی شاید یہ پہلی مثال ہے جس میں سٹن گن کا استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو قوانین و قواعد کا احترام کرنے کی عادت نہیں اُن کے لئے ماسک پہننے کی زبانی کلامی ہدایت کافی نہیں اور نہ ہی پولیس کی جانب سے قانون کی موجودگی کا احساس ایک آنکھ بھا رہا ہے لیکن کورونا وبا ہو یا ٹریفک کی روانی‘ تجاوزات ہوں یا جا بجا کوڑا کرکٹ پھیلانے والے‘ اگر قوانین و قواعد کا اطلاق فوری اور سزاو¿ں کی صورت دیکھنے میں آئے تو اِس سے خیر و خوبیاں جنم لیں گی اور اُمید ہے کہ عوام کے جس طبقے کو جرمانے سے نہیں مرعوب نہیں کیا جا سکا اُنہیں سرعام سزاو¿ں سے ڈرایا جا سکے گا ۔پاکستان میں ماسک نہ پہننے سے متعلق سزائیں اور اِن سزاو¿ں پر عمل درآمد عالمی سطح پر بحث اور مزاح کا نکتہ بنا ہوا ہے اور یہ صورتحال اِس حد تک بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز ہے کہ اِس بارے فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے باقاعدہ تحقیقات کر کے حقائق منظرعام پر لائے ہیں جن کے مطابق ایچ ڈی 24 نیوز پر نشر ہونے والے ہفتہ وار مزاحیہ پروگرام میں (24 جولائی 2020ئ) کے روز کچھ ایسے مناظر نشر ہوئے جن میں پروگرام کا میزبان لوگوں کو ماسک نہ پہننے پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ اِس ویڈیو کے ایک مختصر کئے حصے کو سوشل میڈیا صارفین نے بھارت کے وزیرصحت سے منسوب کیا اور تشہیر کرتے ہوئے لکھا کہ ”بھارت میں ماسک نہ پہننے پر وزیرصحت سرعام سزائیں دے رہے ہیں۔“ ٹوئیٹر اور فیس بک پر قریب ساڑھے چار لاکھ مرتبہ دیکھی اور کروڑوں صارفین تک بذریعہ واٹس ایپ پہنچنے والی مذکورہ ویڈیو کا ہزاروں کی تعداد میں مختلف صارفین کے اکاو¿نٹ شیئر ہونے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ جس میں خود بھارتی سوشل میڈیا صارفین بھی شامل ہیں اور اِن میں چند ایک وضاحت بھی کرتے ہیں لیکن جہاں جھوٹ اور جعل سازی بڑے پیمانے پر رونما ہو رہی ہو‘ وہاں اکا دکا آوازیں پر کان نہیںدھرا جاتا۔ بہرحال لب لباب یہ ہے کہ دنیا ’کورونا وبا‘ کے بارے میں نہایت ہی سنجیدگی سے سوچ رہی ہے اور چاہتی ہے کہ ایشیائی ممالک بشمول اہل پاکستان بھی اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ اِس سلسلے میں احتیاطی تدابیر انتہائی سادہ و آسان ہیں کہ 1: گھر ہو یا دفتر‘ محلہ ہو یا بازار‘ تعلیمی ادارہ ہو یا عبادت گاہ‘ ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ 2: صفائی کا خیال و اہتمام کیا جائے۔ کوڑا کرکٹ یہاں وہاں نہ پھینکا جائے بلکہ اِسے تلف کیا جائے۔ 3: بالخصوص اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھویا جائے۔ 4: درست طریقے سے ماسک پہنا جائے (ناک منہ ڈھانپ کر رکھے جائیں) اور 5: کسی بھی قسم کے عمومی یا خصوصی اجتماعات کا حصہ بننے سے گریز کیا جائے۔لائق توجہ اور قابل مذمت طرزِفکروعمل ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں ماسک نہ پہننے کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں اُن مقامات اور مواقعوں پر دیکھنے میں آتی ہیں‘ جہاں یہ بالکل نہیں ہونی چاہئیں‘ جیسا کہ سرکاری دفاتر‘ تعلیمی ادارے‘ بڑے کاروباری مراکز‘ اور خوشی و غم تقاریب کے دوران ماسک نہ پہننے والے کی تعداد زیادہ ہوتا ہے۔ المیہ ہے کہ ماسک نہ پہننے کو معنوی طور پر ”بہادری کے مظاہرے“ کی صورت دیکھا جاتا ہے‘ اِس لئے فیصلہ سازوں کو اصل مسئلے اور ضرورت کی جانب توجہ دینا ہوگی جو کہ اجتماعی رویوں میں تبدیلی لانے سے متعلق ہے تاکہ ماسک نہ پہننے جیسی ” اجتماعی مظاہرے“ دیکھنے میں نہ آئیں اور جب اجتماعی طور پر رویئے تبدیل ہوں گے تو انفرادی سطح پر بھی فکروعمل کی اصلاح ہوتی چلی جائے گی۔ اِس سلسلے میں اصلاحی کوششوں کے لئے سیاسی و مذہبی رہنما اور ذرائع ابلاغ اپنی اپنی توانائیاں اور جملہ وسائل کس حد تک مرکوز و مربوط کر پاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں قومی حکمت عملی کیا ہے اور کیا ہونی چاہئے‘ اِس بارے میں دردمندی و باریک بینی سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وبا کی دوسری لہر بالخصوص پاکستان کے لئے پہلے سے زیادہ شدید اور پہلے سے زیادہ بڑا خطرہ ہے‘ جس کے پھیلنے کی صورت احتیاطی تدابیر بھی کارگر نہیں رہیں گے‘ اِس لئے ’دیر ہونے سے پہلے فیصلہ سازوں کو خاطرخواہ عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ موجودہ حالات میں قوانین و قواعد بنانا ہی کافی نہیں بلکہ اِن پر عمل درآمد ممکن بنایا جائے اور اِس بارے میں بھی غور و فکر ’قومی ضرورت‘ ہے۔