اسلام آباد:پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جلسوں میں وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جا سکتا ہے تو کسی ادارے کے ملازم کا نام کیوں نہیں؟ میں فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں تاہم ہمارا ایشو نام لینا نہیں، ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے۔
پی ڈی ایم کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام کی بحالی ہے،تمام جماعتیں متفقہ میثاق کے لیے 13نومبر کو اپنی تجاویز پیش کریں گی، 14 نومبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم)کا مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، آفتاب شیرپاؤ، مولانا عبدالغفور حیدری، امیر حیدرہوتی، میاں افتخار حسین، شاہ اویس نورانی، ساجد میر، حافط عبدالکریم اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شریک ہوئے۔
اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ڈی ایم کے جلسوں اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے متفقہ موقف اور بیانیہ کی تشکیل پر مشاورت ہوئی۔آرمی چیف کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ تاحال نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران اس سوال پر کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں فوجی قیادت کے نام لینے کے حوالے سے کیا بات ہوئی؟ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کسی کا نام لینا یا نہ لینا کوئی مسئلہ نہیں یہ مسلۂ صرف میڈیا نے بنایا ہوا ہے۔میں فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں۔ وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جا سکتا ہے تو کسی ادارے کے بندے کا نام کیوں نہیں؟ ہمارا ایشو نام لینا نہیں، ملک ک نظام ٹھیک کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں پارٹی سربراہان اور انکے نمائندے شریک ہوئے۔ معاشی بحران ملک کا سنگین مسئلہ ہے۔عوام کا سکون اور عزت نفس چھین لیا گیا ہے۔پی ڈی ایم کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام کی بحالی ہے۔حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
تمام جماعتیں متفقہ میثاق کے لیے 13نومبر کو اپنی تجاویز پیش کریں گی، 14 نومبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں مریم نواز اور ان کے شوہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی۔
اجلاس میں وزیرداخلہ کے بیان پر احتجاج کیا گیا جس میں وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ اے این پی کے رہنما کیوں شہید کیے گئے۔ ریاست کی سطح پر مسلم لیگ ن کو بھی دھمکی دی گئی،سیاستدانوں کو قتل کرنے والے دہشتگردوں کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ واضح ہو چکا۔
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے اور اپنے کیسز التوا میں جارہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہمارے پاس بہت سے آپشنز موجود تھے، اپنی پارٹی کے افکار و نظریات سے ذرا بلند ہوکر سوچنا ہوگا، ہماری تحریک کے نتیجے میں کوئی ردعمل آتا ہے تو کیا ہم نے کوئی حکمت عملی بنالی ہے جب کہ کیا ہمارے کارکن اور عوام تیار ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ غیرملکی فنڈنگ کیس کے فیصلے میں اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے، دنیا کو چور کہا جارہا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان اپنے اوپر دائر مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دال کالی ہے۔