امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار 78سالہ جوبائیڈن نے معرکہ سر کرلیا۔وہ 46ویں امریکی صدر بن گئے عہدہ صدارت تک رسائی کے لئے انتخابی کالج کے 270ووٹ درکار تھے۔آبائی ریاست پنسلوانیا اور ایریزوناکے ووٹ ملنے کے بعد جوبائیڈن کے الیکٹرول ووٹوں کی تعداد 290 ہوگئی جبکہ رپبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ 214 ووٹ حاصل کر سکے جوبائیڈن نے امریکی تاریخ میں پہلی بارسات کروڑ 51لاکھ، 98ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔انہوں نے مجموعی ووٹوں کا 50.6فیصد حاصل کیا۔ آکلینڈ کیلی فورنیا میں پیدا ہونے والی امریکی سینٹ کی رکن56سالہ سیاہ فام کامیلا ہیرس امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکی عوام نے اس ملک کو جوڑنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ہماری سیاست کا اولین مقصد عوامی مسائل کو حل کرنا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ کسی کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے، ہم سیاست میں مخالف ضرور ہیں مگر کسی کے دشمن نہیں، بطور صدر مجھ پر تمام عوام کی ذمہ داری ہوگی۔جوبائیڈن نے کہا کہ امریکی عوام نے ماحولیات اورمعیشت کی بہتری کیلئے ووٹ دیا،انتشار اور اختلافات میں الجھ کر وقت ضائع نہیں کرناچاہتا، ہمارا معاشی منصوبہ کورونا کے بعدنقصان پرقابو پانے کیلئے ہوگا، جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب امریکی صدرجوبائیڈن پاکستان اور کشمیریوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔وہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی حمایت کرتے رہے ہیں پاکستان نے 2008میں جوبائیڈن کو انسانی حقوق کے لئے خدمات پر اعلیٰ سول ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ بھارتی میڈیا نے جوبائیڈن کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نواز جوبائیڈن کی کامیابی سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات مستحکم ہوں گے۔صدر بائیڈن جنوری2021کے پہلے ہفتے امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا، چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری ، مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام اور جنوبی ایشیاءمیں طاقت کا توازن قائم کرنا بھی جوبائیڈن کو درپیش بڑے چیلنج ہیں۔ڈونلڈٹرمپ کی شکست اور جوبائیڈن کی کامیابی سے امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات اور پالیسیوں میں غیر معمولی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں، رپبلکن پارٹی کو سخت گیر اور رجعت پسند جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو میانہ رو اور ترقی پسند گردانا جاتا ہے مگر عہدہ صدارت پر فائز ہونے والوں کو امریکی مفادات کے لئے کام کرنا ہوتا ہے ان کی پالیسیوں میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں آتی۔بھارتی نژاد نائب صدر کامیلا ہیرس کی موجودگی میں امریکی حکومت سے پاکستان نوازی کی توقع رکھنا خود فریبی ہوگی۔بھارت سوا ارب کی آبادی کا ملک اور دنیا کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور تمام حکومتیں بھارت کے ساتھ تجارت کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہیں۔ افغانستان سے فوجی انخلائ، وہاں قومی حکومت کا قیام اور امن کی بحالی کے ساتھ معیشت کی بہتری کےلئے جوبائیڈن حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یہ بات پاکستان کےلئے اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے جوبائیڈن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصان کا بخوبی اندازہ ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے حصہ داروں کو بجاطور پر نئی امریکی انتظامیہ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ امریکہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنے کے بجائے ہمارے نقطہ نظر کو سمجھنے کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے چین، شمالی کوریا اورروس کے ساتھ محاذآرائی کی جو پالیسی اختیار کی ہے۔ جوبائیڈن حکومت سے اس پالیسی پر نظر ثانی اور مفاہمت پر مبنی تعلقات کے فروغ کی توقع کی جاسکتی ہے۔