تعلیمی مستقبل: حساس معاملہ

پاکستان میڈیکل کمیشن کی زیرنگرانی ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز‘ کے لئے داخلہ ٹیسٹ ’15 نومبر‘ کے روز پورے ملک میں بیک وقت شروع اور اختتام پذیر ہوں گے جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات حصہ لیں گے اور اِس مقصد کے لئے 200 سے زیادہ امتحانی مراکز چاروں صوبوں بشمول گلگت میں قائم کئے گئے ہیں اور اِس امتحان کے بعد متعلقہ کالجوں میں داخلے کا عمل حسب اعلان ”31 دسمبر“ تک مکمل ہونے کی اُمید ہے چونکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ چاروں صوبوں اور گلگت میں بیک وقت ”اِیم ڈی کیٹ (میڈیکل اَینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ)“ اِمتحان لیا جائے گا‘ اِس لئے مشکلات اور پیچیدگیاں خارج اَز اِمکان نہیں اور یہی وجہ ہے کہ منتظم ادارے کی جانب سے کئی ایک وضاحتیں جاری ہو چکی ہیں جن میں تازہ ترین اِس بات کی یقین دہانی ہے کہ امتحانی ٹیسٹ کے سوالات اُس نصاب سے بنائے جائیں گے جو طلبہ کے زیرمطالعہ کتب کا نچوڑ ہو گا اور کوئی بھی سوال ”بیرون نصاب (out-of-course)“ نہیں ہوگا۔مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے مختلف امتحانی بورڈز کے زیرنگرانی پڑھایا جانے والا نصاب ایک نہیں اور صرف عنوانات ہی نہیں بلکہ اسباق میں بھی فرق ہے۔ ملک کا سب سے جدید نصاب تعلیم صوبہ پنجاب کا ہے جسے دوست ممالک (جرمنی و امریکہ) کے مالی و تکنیکی تعاون سے بناتے ہوئے اساتذہ کی تربیت میں ٹیکنالوجی کو شامل رکھا گیا ہے اور اِس تجربے کے خاطرخواہ مفید نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ مفید نتائج کیا ہیں اِن کا اندازہ اِس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے کیڈٹ کالجوں میں داخلے کی کوچنگ اکیڈمیز میں پنجاب کے نصاب تعلیم کی کتب پڑھائی جاتی ہیں بالخصوص پنجاب کی ریاضی اور انگریزی زبان کی کتب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب کا نصاب تعلیم (ہر تعلیمی درجے کے لحاظ سے) آن لائن موجود ہے اور اِسے بلاقیمت حاصل (ڈاو¿ن لوڈ) کیا جا سکتا ہے۔ یہی خوبی اگر ملک کے دیگر صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے نصاب سے متعلق بھی عام ہو جائے تو مضائقہ (حرج) نہیں کیونکہ نصاب تعلیم کی رازداری کی کوئی منطق یا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ بہرحال میڈیکل و ڈینٹل کالجز کے امتحان (MDCAT) کےلئے جو پرچہ بنایا گیا ہے مبینہ طور پر اُس میں تمام امتحانی بورڈز کے نصاب کو مدنظر رکھتے ہوئے متفرق موضوعات (اسباق) سے سوالات تیار کئے گئے ہیں لیکن یہ تو میڈیکل کمیشن کا کہنا ہے‘ اصل صورتحال اور زمینی حقیقت تو پندرہ نومبر کے روز یا اُس کے فوری بعد عیاں ہوگی جب اِمتحانی اُمیدواروں کی جانب سے تاثرات سامنے آئیں گے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں کئی ایسے صارفین بھی ہیں جو طلبہ و طالبات کی نمائندگی کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن ایسی تجاویز اور اصلاحات کو خاطرخواہ توجہ دینے کی تاحال کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جس کا فخریہ ذکر کیا جا سکے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے غیرملکی طلبہ کے لئے مختص نشستیں اور طریقہ¿ کار معمولی ردوبدل سے بحال رکھا گیا ہے جس سے پاکستان کے اپنے طلبا و طالبات کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سرکاری و نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں نشستیں بڑھائی جائیں اور اِس مقصد کے لئے شام کی کلاسز کا اجرا کیا جا سکتا ہے۔ تصور کریں کہ جب تیس ہزار طلبہ انٹری ٹیسٹ دیا کرتے تھے تب بھی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں نشستوں کی تعداد وہی تھی جو آج ڈیڑھ لاکھ درخواست گزاروں کےلئے ہے۔ طلب کی تعلیم کے لئے نجی اِداروں کی خدمات اور سرمایہ کاری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اِس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات پر غور ہونا چاہئے کہ جس طرح سیاحت سے باآسانی غیرملکی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے بالکل اِسی طرح علاج معالجے اور طب کے مختلف شعبوں میں تعلیم کو بھی بطور سیاحت متعارف کروایا جا سکتا ہے تذبذب کے اِس ماحول میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ تمام پاکستان کے نصاب تعلیم کا نچوڑ کرتے ہوئے امتحانی پرچہ اور تجرباتی امتحانی نظام تخلیق کیا گیا ہے تو اِس سے اُن کے نفسیاتی دباو¿ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ المیہ ہے کہ داخلے کے خواہشمند 10فیصد سے بھی کم خوش قسمت طلبا و طالبات کو میڈیکل داخلہ مل پاتا ہے اور اِن 10فیصد ذہین ترین طلبا و طالبات کے درمیان مقابلہ کسی بھی طرح محض انتظامی معاملہ نہیں‘ جسے زیادہ گہرائی اور زیادہ حساسیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اِس کا تعلق مستقبل اور ایک ایسی زندگی ہے جس سے طلبا و طالبات اور اُن کے والدین کی محنت و دعائیں اور توقعات وابستہ ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں طب کا شعبہ ایسی مثالی حالت میں نہیں کہ جہاں ذہین ترین طلبا و طالبات کی پہلی ترجیح میڈیکل میں تعلیم ہونا چاہئے لیکن ڈاکٹروں کی آئے روز ہڑتالیں اور مطالبات کے حق میں احتجاج کی خبریں نظرانداز کر بھی دی جائیں‘ جنہیں نظرانداز کرنا آسان نہیں تو بھی طلبا و طالبات کا تعلیمی مستقبل بارے رجحانات میں تبدیلی کے لئے رہنمائی (کونسلنگ) ضروری ہے۔