ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستی کو شکست

گذشتہ چار سالوں کے دوران امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں موجود اقلیتوں کے خلاف ایسی فضاءبنا رکھی تھی کہ جس کی مثال خود امریکہ کی حالیہ تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ ہیلری کلنٹن کے خلاف اپنی الیکشن مہم میں مسلمانوں اور لاطینی امریکی باالخصوص میکسیکن اور میکسیکو کے خلاف بھرپور مہم چلائی، اس دوران امریکی ٹرمپ نے کامیابی کے ساتھ معاشرے میں واضح تقسیم پیدا کی جس کے نتیجے میں وہ ہیلری کلنٹن کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ صدر بننے کے بعد امریکہ میں لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم اور پر تشدد واقعات رونما ہونے لگے، اس دوران جہاں امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف حالات پہلے کی نسبت مشکل ہوتے رہے وہاںامریکہ کے سیاہ فام امریکی شہری بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہوتے رہے، امریکہ میں ٹرمپ کو ایک نسل پرست آدمی کے طور پر پکارا جانے لگا تھا، امریکی میڈیا اُس سے نسل پرستی کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ سوالات کرنے لگا جس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا پر فیک نیوز چلانے کے الزامات دُھراتا رہا، لیکن بالآخر امریکہ میں الیکشن مہم کا آغاز ہوا تو ڈیموکریٹ صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن اور اُس کی نائب صدارتی اُمیدوار کامیلا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اُس کے نسل پرستانہ اقدامات کو بنیاد بنا کر ایسی کمپین چلانا شروع کردی کہ الیکشن سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی ہار واضح نظر آنے لگی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُس نے انتخابات سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر وہ ہار جاتے ہیں تو اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ یہ فراڈ الیکشن ہونگے۔ اور ایسا ہی ہوا امریکہ میں انتخابات ہوگئے، ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک زبردست مقابلے کے بعد ڈیموکریٹس کے صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن اور اُس کی نائب صدارتی اُمیدوار کامیلا ہیرس واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئے ہیں، جبکہ صدر ٹرمپ انتخابات کو ماننے سے انکاری ہے۔لیکن اُس کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اب اس کے گھر جانے کا وقت ہو چکا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی حد تک امریکہ کی معیشت کو فائدہ پہنچایا لیکن دوسری جانب امریکہ کی معاشرتی اور سیاسی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ معاشرتی نقصان کا ذکر تو ہم کر ہی چکے ہیں ، امریکہ کی سیاسی ساکھ کو اِس قدر ہلا کر رکھ دیا کہ دُنیا کی دیگر قوتوں نے امریکہ کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے Paris agreement سے نکلنے کا اعلان کیا، جو کہ درحقیقت تھا ہی امریکہ اور یورپ کا مشترکہ منصوبہ، اُس نے جرمنی کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات کو خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔امریکہ کی شرمندگی کی رہی سہی کسر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کے وباءکے دوران نکال دی۔ امریکہ جو کہ اس طرح کی صورتحال میں باقی دُنیا کو لیڈ کرتا تھا اب کے بار خود ہی اِس صورتحال میں اکیلا پھنس کر رہ گیا، امریکی صدر نے اس دوران نہایت غیر سنجیدہ کردار ادا کیا، کورونا وائرس کے امریکہ میں پھیلنے سے پہلے موصوف دعوے کرتے رہے کہ ان کے پاس ویکسین موجود ہے لہٰذا امریکہ کو اس وباءسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، لیکن جب وباءنے امریکہ میں قدم جمانے شروع کیے تو ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کو دھمکیاں دینا شروع کردیں ، چین کو اپنے نشانے پر لیے رکھا۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اِس وقت امریکہ کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ تا دمِ تحریر امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ اس مرض کی وجہ سے مرنے والے امریکی شہریوں کی تعداد 2 لاکھ 43ہزار سے زائد ہے، آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ خود کو دُنیا کی اکلوتی سُپر پاور کہنے والا امریکہ کورونا وائرس سے پوری دُنیا میں سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔