اقتصادی شعبے میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی ’اِنقلابی تبدیلیوں کا ظہور‘ پاکستان میں بھی دیکھا جا رہا ہے‘ جس کی ایک جھلکی بذریعہ اِنٹرنیٹ ادائیگیاں ہیں جنہیں اِصطلاحاً ’اِی کامرس ‘ کہا جاتا ہے اور بینکاری کے دیگر شعبوں کی نسبت سب سے تیزرفتار اور زیادہ ترقی اِسی ایک شعبے میں دیکھنے میں آئی ہے جو سالانہ 78.9 فیصد سے بڑھ رہا ہے یعنی ہر سال گذشتہ سال کے مقابلے قریب 79فیصد صارفین ’اِی کامرس‘ کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں جبکہ اِی کامرس کی سہولیات فراہم کرنے والوں کی آمدنی میں بھی ہر سال 33.3 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی فیصلہ سازوں کو اِس بارے میں غور کرنا چاہئے کہ اَربوں روپے کا سالانہ منافع کمانے والے مالیاتی ادارے اگر ’اِی کامرس خدمات‘ کو بھی منافع کا ذریعہ سمجھیں گے تو اِس سے معیشت کو دستاویزی بنانے سے لیکر اِس کے ’اِی کامرس‘ میں ڈھلنے جیسے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2019-20ءکے آخری تین ماہ کے دوران گزشتہ برس کے مقابلے زیادہ آمدنی حاصل ہوئی اُور خوش آئند ہے کہ جب ایک سہ ماہی میں حاصل شدہ کل آمدنی 2.3 ارب کا موازنہ ایک سال قبل ہونے والی آمدنی سے کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑھ کر 9.4 ارب روپے تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین ’اِی کامرس‘ جیسی باسہولت بینکاری پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ جس سے سالانہ 34.8 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِی کامرس میں بینکاری کے وہ سبھی شعبے شامل ہیں جن میں الیکٹرانک آلات کا استعمال کر کے ادائیگیاں یا وصولیاں کی جاتی ہیں۔ اِن میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز بھی شامل ہیں جن سے مالی سال 2019-20ءکے دوران ڈیبٹ کارڈز کے استعمال میں 88فیصد جبکہ کریڈٹ کارڈز کے استعمال میں 18 فیصد اِضافہ ہوا۔ مرکزی بینک کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار قومی سطح کے رجحانات سے متعلق ہیں جن میں صوبوں کی حصہ داری ظاہر نہیں کی گئی کہ کس صوبے کے صارفین نے ’اِی کامرس‘ سے کس قدر استفادہ کیا لیکن اگر اَعدادوشمار دستیاب ہوں تو خیبرپختونخوا آبادی کے تناسب سے کم ترین سطح پر ہوگا‘ جس کی بنیادی وجوہات میں اقتصادی سرگرمیوں کا دستاویزی نہ ہونا ہے جبکہ کاروباری لین دین اور خریدوفروخت میں ”غیرمعمولی رازداری“ کو برقرار رکھنا بھی ”کامیاب کاروباری“ حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ اِی کامرس کے ذریعے خیبرپختونخوا کے تعلیمی اِداروں کی آمدن و اخراجات کو بڑی حد تک شفاف بنایا جا سکتا ہے جو ٹیکس مینجمنٹ کے نام سے ٹیکس چوری کے مرض میں مبتلا ہیں اُور اِس میں اِنہیں بینکوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے توجہ دلانے پر جو سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کےلئے قانون سازی کی گئی ہے اُس کے بعد بینکوں کی جانب سے بڑے کاروباری صارفین کو ٹیکس چوری میں مدد دینے کا اِمکان اگرچہ بڑی حد تک کم ہو گیا ہے‘ جسے مزید کم کرنے کےلئے ’اِی کامرس کے فروغ‘ کو لین دین کے بہت سارے معمولات میں لازم و ملزوم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ بظاہر انتہائی معمولی دکھائی دینے والی تعلیمی اداروں کی فیسیں‘ جن کی ادائیگیاں اور وصولیوں سے حقائق بطور نتیجہ اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ سے وصولیاں اور ملازمین کی تنخواہیں‘ یوٹیلٹی بلز‘ کرایہ‘ قرض کی اَقساط اور متفرق اَخراجات اَگر اِی کامرس کے ذریعے اَدا ہوں اور اِن وصولیوں اور اَدائیگیوں کے عمل میں اُس خاص قومی تناسب یعنی سالانہ 79فیصد نہ سہی 50فیصد سے بھی اِضافہ ہو تو چند برس میں اِس ایک شعبے کا پورا نظام ’اِی کامرس‘ پر منتقل ہو جائے گا‘ جس کا تعلق کسی نہ کسی صورت ملک کی ساٹھ فیصد آبادی سے رہتا ہے کیونکہ پاکستان کی کل آبادی میں نوجوان افراد نصف سے زیادہ ہیں! اِی کامرس کی جدید ترین شکل ’موبائل فون ایپس‘ ہیں جنہیں بینکیں مختلف خوشنما ناموں سے متعارف کروایا گیا ہے تاہم اِن سے استفادہ کرنے کےلئے اِنٹرنیٹ اور سمارٹ فون یا کمپیوٹر و لیپ ٹاپ کا ہونا ضروری ہے جن کا تعلق ایک خاص قسم کی خواندگی سے بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں کے پاس ’سمارٹ‘ کہلانے والے موبائل فونز ہوں اُن کی خواندگی کا معیار بھی اِس درجہ بلند ہو کہ وہ موبائل فون اِیپس سے صرف حسب ضرورت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اِستفادہ کر سکیں۔ اکثر سمارٹ فونز کے صارفین جن میں اکثریت خواتین کی ہے نہ تو بینک اَکاو¿نٹس رکھتی ہیں اور نہ ہی ’اِی کامرس‘ سے استفادہ کرتے ہوئے آن لائن ادائیگیاں یا وصولیاں کرتی ہیں۔ پاکستان میں موبائل فون ایپس کے ذریعے یوٹیلیٹی بلز کی اَدائیگی بھی ”اَچھوتا تصور“ ہے جبکہ باسہولت ہونے کے ساتھ اِس سے بینکاری کے وسائل پر صارفین کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ مئی 2018ءکے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ”پاکستان میں ایسے موبائل فون صارفین کی کل تعداد 5 کروڑ 54 لاکھ سے زیادہ تھی جو تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سال دوہزار اٹھارہ کے اختتام تک تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں چند ہزار جیسا معمولی اِضافہ ہوا۔ اَکتوبر دو ہزار بیس کے اِختتام تک پاکستان میں اِنٹرنیٹ بذریعہ موبائل فون صارفین کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کا 21فیصد ہے۔ رواں ہفتے پاکستان میں جدید ترین تیز رفتار انٹرنیٹ (5G) کے ذریعے ویڈیو کالنگ کا ”کامیاب تجربہ“ چین کی کمپنی زونگ نے اسلام آباد دفتر سے بیجنگ ویڈیو کال کیا‘ جس کے عینی شاہد وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ کیمونیکشن سید امین الحق نے پاکستان کے فور جی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے 5G نیٹ ورک پر ویڈیو کال کا عملی مظاہرہ دیکھا اور یقینا حیران ہوئے ہوں گے کہ تیزرفتار انٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو کالنگ کے ذریعے تصویر اور آواز کی بنا رکاوٹ ترسیل ممکن ہو چکی ہے جو اِس سے قبل‘ اِس قدر سہل و معیاری اَنداز سے دستیاب نہیں تھی لائق توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ وفاقی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2020ء میں پاکستان کے موبائل فون صارفین کی تعداد کل آبادی کا 81 فیصد ہے‘ جس میں اِضافہ ہو رہا ہے جبکہ لینڈلائن ٹیلی فون کے ذریعے ’براڈبینڈ‘ صارفین کل آبادی کا 42فیصد ہیں اور یہ سبھی اشاریئے اِس حقیقت کا بیان ہیں کہ پاکستان میں ’اِی کامرس کی وسعت اور فروغ‘ قابل عمل ہے‘ تاہم اِس شعبے کو سرکاری و نجی مالیاتی اور کاروباری اِداروں کی خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں۔