پشاور:وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے تمام محکموں کو ہدایت کی ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ترقیاتی منصوبوں کے پی سی ون جلد از جلد تیار کئے جائیں اور تمام محکمے اپنے اپنے ترقیاتی منصوبوں پر مقررہ ٹائم لائنز کے مطابق عملی پیش رفت کو یقینی بنائیں۔
وزراء اپنے محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ہر مہینے اجلاس بلائیں، وہ خود تمام محکموں کی کارکردگی اور ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے ہر محکمے کا الگ الگ اجلاس منعقد کریں گے، غیر تسلی بخش کارکردگی پر کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہوگی۔
وہ منگل کو صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ جس میں صوبائی وزراء، مشیر، معاونین خصوصی، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی۔اجلاس کے بعدکابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات و اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے ایلیمنٹری اور ہائیر ایجوکیشن میں سیکنڈ اور ڈبل شفٹ شروع کرنے کی ہدایت بھی کی تا کہ طلباء و طالبات داخلوں سے محروم نہ رہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 2 سال ایک ہی پوسٹ پر کام کرنے کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے پر تمام محکمے عمل در آمد یقینی بنائیں جن محکموں نے ابھی تک عمل در آمد نہ کیا ہو ان سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے تمام محکموں بالخصوص تعلیم اور صحت میں بھرتیوں کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کی۔انہوں نے اس سلسلے میں ایٹا کی استعداد کار بڑھانے اور تمام محکموں کوبھرتیاں ایٹا کے ذریعے کرنے کی بھی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت میں نچلی سطح تک مالی و انتظامی اختیارات منتقل کرنے کے لئے بھی طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت کی تا کہ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔وزیر اعلیٰ نے محکمہ صحت کی جانب سے ریسکیو1122 کو تمام ایمبولینسز جلد از جلد حوالے کرنے کی بھی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ایکسپریس ویز بشمول پشاور، ڈی آئی خان اور سوات پر کام تیز کرنے، فارسٹ چیک پوسٹوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے، پشاور بحالی پروگرام پر بھی کام تیز تر کرنے اور صوبے کے تمام بڑے شہروں کے لئے ماسٹر پلان تیار کرنے کے سلسلے میں ضروری اقدامات کی ہدایت کی۔
وزیر اعلیٰ نے دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات کو ہٹانے کے لئے کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھنے جبکہ دریاوں سے ریت اور بجری نکالنے پر پابندی عائد کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ جنوبی اضلاع میں 6 لاکھ ایکڑ زمینوں کو زیر کاشت لانا وقت کی اہم ضرورت ہے اس کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
صوبائی کابینہ کو بتایا گیا کہ فوڈ سیکورٹی کے لئے اپنی نوعیت کی پہلی پالیسی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ محکمہ ابتدائی تعلیم ضم شدہ اضلاع میں خالی آسامیوں پر بھر تیوں کا عمل جلد مکمل کریں۔محکمہ تعلیم میں ای ٹرانسفر پالیسی پر عمل در آمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔صوبے میں مجوزہ کیڈٹ کالجوں کے قیام پر فیزیبلٹی رپورٹ جلد پیش کی جائے، صحت انصاف کارڈ اسکیم میں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کو بھی شامل کرنے پر کام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں پر ضرورت ہوگی طبی مراکز کو خود مختاری دیں گے، تمام ایم ٹی آئز کے بورڈ آف گورنرز کی خالی آسامیوں کو جلد پر کیا جائے، ضم شدہ ضلاع میں میڈیکل کالجز کے قیام کے لئے فیزیبلٹی رپورٹ جلد تیار کی جائے۔ ہسپتالوں کی بحالی اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم پر کام تیز کیا جائے۔
محکمہ سی اینڈ ڈبلیو صوبے میں تمام ایکسپریس ویز منصوبوں پر پیشرفت کی کڑی نگرانی کرے۔محکمہ انرجی اینڈ پاور توانائی کے تمام بڑے منصوبوں پر ٹائمز لائنز کے مطابق پیش رفت یقینی بنائے، اگلے سال جنوری تک بالا کوٹ پاور پراجیکٹ کی سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تیاریاں مکمل کی جائیں۔صوبے کے تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی خالی آسامیوں کو ایک مہینے کے اندر اندر پُر کیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ صوبے میں پلاسٹک شا پنگ بیگز کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم شروع کی جائے۔ابتدائی طور پر صوبائی دارلحکومت میں مہم شروع کی جائے۔دوسرے مرحلے میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں مہم شروع کی جائے گی۔محکمہ مال میں کئی عرصے تک ایک ہی پوسٹ پر تعینات، پٹواریوں، تحصیلداروں، گرداور اور دیگر عملے کا فوری تبادلہ کیا جائے۔ڈپٹی کمشنر کے دفاترمیں عرصہ درازتک تعینات سپرنٹنڈنٹس اور کلرکس کو بھی فوری طور پر ہٹایا جائے۔
کامران بنگش نے مزید بتایا کہ صوبائی کابینہ نے تنازعات کے متبادل حل کے مسودہ قانون2020ء کی منظوری دیدی ہے تاکہ عدالتوں میں طویل مقدمات بھگتنے، وقت اور وسائل کے ضیاع کو کم سے کم کیا جا سکے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔خیبر پختونخوا میں جرگہ سسٹم کی روایت پہلے سے موجود ہے لیکن اسے قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔اب اسے باقاعدہ قانونی شکل دینے کیلئے یہ مسودہ قانون پاس کیا گیا۔ اس مسودہ قانون کے ذریعے دیوانی اور فوجداری دونوں مقدمات کیلئے متبادل حل کیلئے طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے اور ڈویژنل اور ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کام کریں گی۔
ثالثی کمیٹیوں میں پولیس، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں،پراسیکیوشن، سپیشل برانچ،وکلاء، اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ افسران، علماء، سول سوسائٹی،عمائدین علاقہ وغیرہ کو نمائندگی دی گئی ہے۔ثالثی کمیٹی کو عدلیہ، ضلعی انتظامیہ تنازعات کے حل کیلئے کیسزRefer کر سکے گی اور یہ کمیٹیاں عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کریں گی جس پر فیصلہ سنایا جائے گا۔ اس قانون سازی کے ذریعے جرگہ کو قانونی تحفظ فراہم ہو سکے گا۔
صوبائی کابینہ نے صوبائی وزراء کے مراعاتی ایکٹ1975ء میں ترمیم کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت وزراء کے رہائش گاہوں کے یوٹیلٹی بلز محکمہ ایڈمنسٹریشن ادا کریگا۔ اس سے قبل ادائیگی کیلئے صوبائی وزراء یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرکے اپنےClaimsمتعلقہ محکمے کو بھجواتی تھی جس کے سبب اکثر بل کی ادائیگی میں تاخیر ہو جاتی تھی اور arrears کی صورت میں زائد بل جمع کرنا پڑتا تھا۔ اس اقدام سے یوٹیلٹی بلز کی بر وقت ادائیگی سے صوبائی خزانے پر اضافی بوجھ نہیں پڑے گا اور محکمہ ایڈمنسٹریشن بلوں کی بر وقت ادائیگی یقینی بنائے گا۔ صوبائی کابینہ نے بلوں کی ادائیگی کیلئے محکمہ ایڈمنسٹریشن کو30لاکھ روپے کے فنڈز کی فراہمی کی منظوری دیدی ہے۔صو
بائی کابینہ نے سوات میں زرعی یونیورسٹی نیسپاک کے ذریعے تعمیر کرنے کی منظوری دیدی ہے۔صوبائی کابینہ نے ایجوکیشن ایمپلائز فاؤنڈیشن کے قیام کیلئے نوٹیفیکیشن کے اجراء کی منظوری دیدی ہے۔ فاؤنڈیشن کے قیام کا مقصد کم خرچ پر ایجوکیشن کے ملازمین کو رہائش کی فراہمی، ملازمین کے بچوں کو سکالر شپ،25سال تک کے قابل طلباء کو نقد ایوارڈ،ریٹائرمنٹ پر مالی امداد، شادی گرانٹ، ملازمین کی فلاح وبہبود کیلئے مختلف سکیموں کے اجراء یقینی بنانا ہے۔صوبائی کابینہ نے متبادل جگہ پر1122 Rescue کیلئے اکیڈیمی کے قیام کی منظوری دید ی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی کابینہ نے شاہ کس کے مقام پر مذکورہ اکیڈیمی کے قیام کی منظوری دی تھی تاہم وہاں پر قانون نافذ کرنے واے اداروں کی تربیت کیلئے اکیڈیمی موجود تھی۔لہذا کابینہ نے فیصلہ کیا کہ شاہ کس کی بجائے کسی مناسب جگہ پر Rescue-1122 کیلئے اکیڈیمی قائم کی جائے۔ اکیڈیمی کے قیام پر3174 ملین روپے کی لاگت آئے گی۔
صوبائی کابینہ نے صوبے میں سیاحت کے فروغ کیلئے کالام کمراٹ روڈ،48کلو میٹر تھل۔پٹراک روڈ52کلو میٹر اور تھل۔جازباندہ روڈ 14کلو میٹر کی تعمیر اور ضروری فنڈز کی فراہمی کی منظوری دیدی ہے۔صوبائی کابینہ نے گلیات میں 5ریسٹ ہاؤسز کی آؤٹ سورسنگ اور Online Booking کی منظوری دیدی ہے۔ ان ریسٹ ہاؤسز میں سپیکر ہمالہ ریسٹ ہاؤس، پولیس آئی جی ہاؤس، کارناک ہاؤس شامل ہیں جبکہ باقی ماندہ 2 ریسٹ ہاؤسز جن میں گورنر ہاؤس اوروزیراعلیٰ ہاؤس شامل ہیں کی بحالی اور تزئین و آرائش کے بعد محکمہ سیاحت کوoutsourcing کیلئے حوالے کر دیا جائیگا۔
واضح رہے کہ مجموعی طور پر168 ریسٹ ہاؤسز کی outsourcingکا فیصلہ ہوا تھا جن میں 48 ریسٹ ہاؤسز کیoutscouringکا اشتہار جاری کر دیا گیا ہے جبکہ دوسرے فیز میں 80ریسٹ ہاؤسز بشمول سوات سرینہ ہوٹل شامل ہیں۔مذکورہ بالا 168ریسٹ ہاؤسز کیoutsourcing اور بعض ریسٹ ہاؤسز کی بحالی و تزئین و آرائش پر تیزی سے کام جاری ہے تاکہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق اسے عوام کیلئے کھول دیا جائے۔
صوبائی کابینہ نے کوڈ آف سول پروسیجر ایکٹ2019ء میں چند ترامیم کی منظوری دی تھی تاہم وکلاء برادری کے تحفظات کے پیش نظر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں حکومتی ممبران کے ساتھ ساتھ وکلاء کو بھی نمائندگی دی گئی تاکہ باہمی مشاورت سے ترامیم منظور کی جائیں اور وکلاء کے تحفظات کا ازالہ ہو۔ کمیٹی نے طویل غور و خوض کے بعد 2نومبر کو اپنے اجلاس میں اتفاق رائے سے جن ترامیم پر اتفاق کیا اسے کابینہ کی منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔چونکہ ان ترامیم کا فوری نفاذ ضروری تھا۔اس کے پیش نظر کابینہ نے اسے آرڈیننس کی صورت میں جاری کرنے کی منظوری دی۔
ان ترامیم کا بنیادی مقصد دیوانی مقدمات جلد از جلد نمٹانا اور عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہے۔صوبائی کابینہ نے پناہ گاہوں کے بہتر انتظام و انصرام کیلئے صوبائی حکومت اور پاکستان بیت المال کے مابین مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کرنے کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت پشاور میں 2اور ڈویژنل سطح پر ایک ایک پناہ گاہ باہمی اشتراک سے چلائی جائیں گی۔
صوبائی حکومت 60فیصد جبکہ پاکستان بیت المال40فیصد کے تناسب سے اخراجات کو بوجھ برداشت کرے گی۔صوبائی حکومت کے اخراجات کی کل رقم168ملین روپے بنتی ہے جس کی کابینہ نے منظوری دی۔کابینہ نے کراچی پورٹ سے درآمد شدہ20 ہزار میٹرک ٹن چینی اٹھانے کے سلسلے میں کابینہ کی فوڈ کمیٹی کومیکنزم فوری طور پر تیار کی ہدایت کی۔
کابینہ نے گندم کی کاشت کیلئے کھاد پر سبسڈی کیلئے صوبائی حکومت کے حصے ی30فیصد ادائیگی کیلئے240 ملین روپے سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی۔کابینہ نے کیاٹو ویئرڈیم کے کمانڈ ایریا کی ڈویلپمنٹ کیلئے اٹلی کے ادارے سے قرض لینے کی بھی منظوری دی۔کابینہ نے ناصر باغ روڈ کے باقی ماندہ حصے کی تعمیر کا کام ایف ڈبلیو او کو دینے کی منظوری دی۔