اے این پی اور پی ٹی آئی کامثبت طرز عمل

جب افغانستان پرروسی اوربعد ازاں امریکی یلغار سے ہمارے ہاں امن وامان کی صورت حال تیزی سے بگڑنے لگی تو سب سے زیادہ متاثر پختون ہی ہوئے گذشتہ تین چار عشرے سے جو حالات اس خطے کے چل رہے ہیں اس نے پختون روایا ت بھی متاثر کرناشروع کی ہیں پختونوں کے دوروایتی ادارے حجرہ اور جرگہ پہلے امتدادزمانہ اورپھر دہشتگردی کاشکارہوتے گئے حجروں اورجرگوں تک میں خودکش دھماکے ہوئے کوشش کی جانے لگی کہ جرگہ کے ادارے کو مکمل طورپرقصہ پارینہ بنادیاجائے مگر دیرینہ روایات اتنی آسانی سے ختم نہیں کی جاسکتیں چنانچہ جرگہ آج بھی قائم ودائم ہے اور کتنے ہی بڑے بڑے فیصلے اسی کے ذریعہ پرامن انداز میں ہوتے آرہے ہیں اس ساری تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گذشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈئیراعجاز شاہ نے ایک بیان دیا جس کو دہرائے بغیر یہ کہنا اہم ہے کہ اس پر اے این پی نے شدید ردعمل کااظہارکیااس نے وزیر داخلہ کے بیان کو اپنے شہداءکے لواحقین کے زخموںپر نمک پاشی قراردیا اس تمام ترصورت حال میں سب سے دلچسپ امریہ رہاکہ بہت سی دیگر سیاسی قوتیں پرائے معاملہ میں پڑکر بیان باز میں مصروف ہوگئیں ان سیا سی جماعتوں نے اے این پی کو مزید برگشتہ کرنے میں کوئی کسراٹھانہ رکھی ان میں وہ جماعتیںبھی شامل ہیں کہ جنہوں نے اے این پی کے دور حکومت میں اس کے کارکنوں کے قتل عام کو ہمیشہ اس کی پالیسیوں کانتیجہ قراردیا ان سیاسی جماعتوں کے سابقہ بیانات آج بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوںنے اے این پی کوہی زیادہ موردالزام ٹھہرائے رکھا یہ جماعتیں آج اے این پی کے ساتھ پی ڈی ایم کاحصہ ہیں اور سب مل کر حکومت کے خلاف میدان میں ہیں پی ڈی ایم کی طرف سے ملک میں حکومت مخالف تحریک کے بعد سے پیدا شدہ کشید ہ ترین سیاسی ماحول میں پی ٹی آئی اور اے این پی نے وزیر داخلہ کے مذکورہ بیان کی بنیاد پر پیداہونے والی صورت حال سے نکلنے کے لیے گذشتہ دنوں بروقت اقدام کرکے ملک بھر کو مثبت پیغام دیا مرکزاور صوبہ میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے رہنما پیر کو صوبہ کی اہم اورسب سے بڑی قوم پرست سیاسی جماعت اے این پی کے مرکز پہنچ گئے اوریوں روایتی پختون جرگہ نے کشید ہ سیاسی ماحول کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کیاپختونوں کے روایتی ادارے جرگے کے ذریعہ ماضی میں بھی بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے رہے ہیںیہ امر بھی خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو بھی ہر دور حکومت میں پختونوں کامشترکہ جرگہ قرار دیا جاتا رہاہے یہی وجہ ہے کہ دیگر اسمبلیوں کی نسبت خیبرپختونخوا اسمبلی میں کشید گی خاصی کم دکھائی دیتی رہی ہے وفاقی وزیر داخلہ کے چند روز قبل دیئے جانے والے بیان کو اپنے شہداءاور قربانیوں کی توہین قراردیتے ہوئے اے این پی نے وزیر داخلہ کے استعفے اور فیکٹ کمیشن کے قیام کامطالبہ کیاتھااور اس مطالبہ پر عملدر آمد کروانے کے لیے گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں ہزاروں کارکنوں کے سرخپوش مظاہر ہ اوردھرنے کااعلان کیاگیاتھا جس کے لیے تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں بلکہ بعض دیگر جماعتوں نے بھی ساتھ دینے کافیصلہ کیاہواتھا اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان تاخیر سے ہی سہی مگر مداخلت کرتے ہوئے وزیر دفاع پرویز خٹک کو اہم ٹاسک حوالہ کیا جس کے بعد اعلیٰ سطحی حکومتی جرگہ ننواتے لے کر روایتی انداز میں باچا خان مرکز گیا اور بغیر کسی وضاحت کے وزیر داخلہ کے بیان پر معذرت کی گئی اے این پی نے بھی کھلے دل کامظاہر ہ کرتے ہوئے معذرت قبول کرنے کااعلان کیا دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی انااور ضد کو آڑے نہیں آنے دیا یوں پسماندہ صوبہ نے پورے ملک کے لیے عملی مثال قائم کردکھائی جہاں معمولی سیاسی اختلافات کو ذاتیات اور پوائنٹ آف نوریٹرن تک لے جانے کی روایات پختہ ہوتی جارہی ہیں سیاسی معاملات کو انا اورضدکی نذر کردینے کی وجہ سے ہی اب سیاسی اختلافات ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سیاسی دشمنیو ں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ولی خان مرحوم کہاکرتے تھے کہ سیاست میں اختلاف اوراختلاف را ئے ہوا کرتاہے دشمنی نہیں اورآج ان کی جماعت نے انکے نظریہ پر عمل کرکے دکھایا اس معاملہ میں دونوں جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں دونوں جماعتوں نے جس سیاسی بلوغت اور رواداری کا مظاہرہ کیاہے یہ بہت سی جماعتوں سے ابھی تک ہضم نہیں ہورہا سب کاخیال تھاکہ گرم تندور میں وہ بھی اپنی روٹیاں پکالیں گی مگر اے این پی اور پی ٹی آئی نے ان پرواضح کردیاہے کہ وہ اپنی روٹیاں پکانے کیلئے اپنے تندورکابندوبست کریں ہمارے خیال میں دونوں جماعتوںنے پورے ملک کیلئے جو مثال قائم کی ہے اگر اس پر عمل کیاجائے توسیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہوسکیں گے دیگر جماعتوں کو اس حوالہ سے ضرور سوچناچاہئے اورمخالفت برائے مخالفت کی روش اب سب کوچھوڑنی چاہئے یہ سیاسی اور پارلیمانی نظا م کے استحکام کےلئے ضروری بھی ہے ۔