پاکستان میں امریکہ کے مرکزی سفارتخانے (اسلام آباد) کے سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) اکاو¿نٹ (@usembislamabad) سے مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال کا ایک ٹوئیٹر پیغام دوبارہ جاری (ری ٹویٹ) ہونے پر تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں نے نہ صرف حیرت و ناپسندیدگی کا ملاجلا اظہار کیا ہے بلکہ متوقع طور پر اِس کی بڑے پیمانے پر مذمت بھی سامنے آئی ہے اور امریکیوں کو پاکستان کی داخلی سیاست سے فاصلہ رکھنے کا مشورہ‘ دینے والوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ اِس قسم کی دبے لفظوں اشاروں پر غور کرے۔ مذکورہ لیگی رہنما کے بیان میں وزیراعظم عمران خان پر کی ذات اور تحریک انصاف کے طرزحکمرانی پر جس انداز میں‘ سخت الفاظ (غیرمحتاط طرز مخاطب) میں تنقید کی گئی وہ نیا نہیں بلکہ اِن دنوں حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں سے تعلق رکھنے والے گیارہ درجن سے زیادہ رہنماو¿ں کا طرزعمل اِس سے ملتا جلتا ہے اور ہر رہنما کم و بیش ایک جیسی ہی ”سخت زبان“ استعمال کر رہا ہے۔ سیاسی بیانات اور اِن کے جوابات سے اُٹھنے والے طوفان ِ بدتمیزی میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی جبکہ اِس میں جلتی پر تیل جیسا کام پاکستان کے امریکی سفارتخانے نے لیگی رہنما کے پیغام کو دوبارہ جاری کرنے کی صورت میں کیا۔ کسی پیغام کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کے عمل کو ’ری ٹیوٹ (retweet)‘ کہا جاتا ہے اور اکثر معروف شخصیات کے پیغامات کو اُن کو مداح یا نظریاتی و سیاسی پیروکار ’ری ٹیوٹ‘ کرتے ہیں‘ جس پر تعجب کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ بنیادی طور پر کسی بھی ٹوئیٹر پیغام میں اظہار خیال کئے گئے مدعا کے بارے میں کوئی صارف دو طرح سے اپنے ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ اُسے پسند (like) کرے اور دوسرا یہ کہ وہ اُسے شیئر (retweet) کر دے اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی پیغام (ٹویٹ) کی مقبولیت کا معیار پسندیدگی کے یہی دو معیار مقرر ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی جانب سے اگر احسن اقبال کے وزیراعظم پاکستان سے متعلق ہتک آمیز پیغام کو اگر صرف پسند کیا جاتا تو بھی بات قابل برداشت ہوتی لیکن اُنہوں نے تو ’ری ٹویٹ‘ کر دیا‘ جس کا مطلب ’سوشل میڈیا کی دنیا‘ یہ ہوتا ہے کہ صارف (اکاو¿نٹ ہولڈر) کو مذکورہ پیغام سے حرف بہ حرف اتفاق ہے۔ بقول مرزا غالب ”دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا .... میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!“پاکستان میں تعینات امریکہ کے سفارتی عملے کی پاکستان کی سیاست اور پاکستان کے وزیراعظم کے بارے میں رائے کا اظہار اپنی جگہ اہم ہے اور اُن سبھی غیرمصدقہ اطلاعات پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے جن کے مطابق ’حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف پر دباو¿ بنائے رکھنے کے لئے (مبینہ طور پر) عالمی اثرورسوخ استعمال کر رہی ہیں اور اپنی اِس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہیں۔‘ بہرحال یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاسی ہو یا غیرسیاسی‘ منتخب ہو یا غیرمنتخب‘ ہر دور حکومت میں امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی اُس دائرے سے باہر اور اُس سطح سے بلند ہے جو عالمی سفارتی آداب و قواعد میں وضع کئے گئے ہیں۔ اِس سلسلے میں ’ویکی لیکس‘ کے ذریعے منظرعام پر آنے والے وہ خفیہ سفارتی مکتوبات بطور حوالہ پیش کئے جا سکتے ہیں جو پاکستان کے سیاسی رہنماو¿ں کے امریکی سفارتکاروں سے ہوئی بات چیت یا خط کتابت سے متعلق ہیں اگرچہ اُن خفیہ سفارتی پیغامات کی حقیقت کا انکار امریکہ نے نہیں کیا لیکن جس قیادت کے نام اُن سے ظاہر ہوئے اُنہوں نے ضرور اُن کی یک طرفہ تردید کرکے اپنے اپنا دامن صاف ظاہر کیا۔ اگر اِس قسم کی خط و کتابت اور سلام کلام کسی دوسرے مہذب اور جمہوری ملک کے سیاسی رہنماو¿ں (قائدین) کے بارے میں منظرعام پر آیا ہوتا تو اکثر نے یا تو خودکشیاں کر لی ہوتیں یا پھر وہ عملاً سیاست سے دستبردار ہو چکے ہوتے کہ کس منہ سے عوام کی عدالت میں جائیں گے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ یہاں کے عوام کا حافظ کمزور ہے اور صرف انتخابات ہی نہیں بلکہ سیاسی ساکھ بنانے میں بھی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔گیارہ نومبر کی سہ پہر 1 بج کر 46 منٹ پر اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے سے ایک پیغام (ٹویٹ) جاری ہوا جس کا من و عن (حرف بہ حرف) ترجمہ یہ ہے کہ ”پیارے پیروکارو: گزشتہ شب امریکی سفارتخانے کا ٹوئیٹر اکاو¿نٹ کسی غیرمتعلقہ شخص نے استعمال کیا۔ امریکہ کا سفارتخانے کسی بھی قسم کے سیاسی پیغام یا پیغامات کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی اُن کی تائید (ری ٹویٹ) کرتا ہے۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ (ہمارے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ سے ’ری ٹویٹ‘ ہونے ایک پیغام کی وجہ سے) غلط فہمی پیدا ہوئی۔“ ظاہر ہے کہ اِس قسم کی غلطی کا ازالہ اُس عمومی اور روائتی جواب سے ممکن نہیں جو اکثر ٹوئیٹر صارفین دیتے ہیں کہ اُن کا اکاو¿نٹ کسی خاص لمحے‘ غیرمتعلقہ شخص کے اختیار میں چلا گیا تھا جسے تکنیکی طور پر ’ہیک‘ کرنا کہا جاتا ہے اور جب کوئی صارف یہ کہہ دے کہ اُس کا اکاو¿نٹ ہیک ہو گیا تھا اور وہ معافی بھی مانگ لے تو بات ختم تصور کر لی جاتی ہے لیکن شاید اِس بارے میں امریکی سفارتکار جان بوجھ کر سوچنا نہیں چاہتے کہ سوشل میڈیا پر جاری ہونا والا کوئی بھی پیغام یا اُس پر تبصرہ‘ یا اُس پر پسندیدگی کا اظہار یا اُسے مزید پھیلانے (ری ٹویٹ) کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہمیشہ اصل حالت میں موجود رہتا ہے۔ سفارتی عملے سے متعلق عالمی قوانین کی رو سے کسی جرم کی صورت استثنیٰ کا اطلاق سوشل میڈیا پیغامات (رائے زنی) پر ازخود نہیں کرنا چاہئے بلکہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں اِس طرح کی مداخلت کا سختی سے نوٹس لینا ضروری ہے۔ کیا یہ بات بھی محض اتفاق ہی ہے کہ احسن اقبال کا مذکورہ ٹویٹ پیغام جاری ہونے سے پہلے امریکہ سفارتخانہ اُن کے ہر پیغام پر نظریں رکھے ہوئے تھا اور اُن کے ہر ایک لفظ کو پڑھا جا رہا تھا؟ سفارتخانوں کے سیاسی مشیر اور سیاسی عملہ مختلف لبادوں میں کام کرتے ہیں‘ جن کے سوشل میڈیا کسی بھی ملک کی قیادت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے اور وہاں کے نظام پر تنقید کرنے کا آسان ذریعہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ سب سے زیادہ اہم پاکستان کی خودمختاری‘ داخلی سلامتی اور سیاسی استحکام ہے اور اگر سیاسی مخالفت میں اِن تینوں امور سے متعلق ذمہ داریوں کا خاطرخواہ لحاظ (مراتب کا پاس) نہیں رکھا جا رہا تو پھر غیروں (امریکیوں) سے شکایت کسی؟