خیبرپختونخوا کے 32ویں گورنر شاہ فرمان خان کے ذاتی ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@ShahFarman_PTI) سے 10نومبر کی شب 10 بجکر 31 منٹ پر جاری ہونے والے پیغام میں اعلان سامنے آیا کہ ”گورنر ہاو¿س خیبرپختونخوا میں شکایات درج کرانے کے لئے ’کمپلینٹ سیل‘ قائم کردیا گیا ہے‘ جس کے ذریعے صوبہ کی سرکاری جامعات میں ہراسانی‘ بھرتیوں میں بے قاعدگیوں‘ مالی بے ضابطگیوں سمیت کسی بھی قسم کی شکایات درج کروائی جا سکیں گی۔“ شکایات درج کرانے کے لئے 2 طریقے مشتہر کئے گئے جن میں ایک تحریری اور دوسرا بذریعہ ٹیلی فون (091-921.1200) ہے جن کے ساتھ مختصر ہدایات میں کہا گیا کہ ”شہری اپنی شکایات بذریعہ ڈاک بنام گورنر کمپلینٹ سیل گورنر ہاو¿س پشاور اِرسال کر سکتے ہیں۔“ سال 2013ءاور سال 2018ءکے عام اِنتخابات میں خیبرپختونخوا سے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے والی ’تحریک انصاف‘ جس شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی کے قیام کے عزم کا دعویٰ رکھتی ہے‘ اُس میں ’گورنر ہاو¿س کا کمپلینٹ سیل‘ یقینا .... اہم‘ گرانقدر اور قابل ذکر اضافہ (پیشرفت) ہے اور اگرچہ اِس میں سوشل میڈیا کے وسائل (فیس بک‘ ٹوئیٹر‘ انسٹاگرام‘ یوٹیوب وغیرہ) یا برقی مکتوب (اِی میل) کے ذریعے شکایات درج کرانے کا کوئی طریقہ یا ترکیب شامل نہیں کی گئی لیکن اگر شکایات درج کرانے کے عمل کو آسان بنانے کے لئے اِن تین پہلوو¿ں پر غور کیا جائے تو اِس سے درخواست گزاروں کے لئے اپنی شکایات کے ساتھ دستاویزی ثبوت (بصورت آڈیو‘ ویڈیو یا تصویر) ارسال کرنا ممکن ہو جائے گا جبکہ گورنر شاہ فرمان خان اور اُن کے ماتحت عملے (ٹیم) کو بھی موصول ہونے والی شکایات کی جانچ‘ اُس کی نوعیت کو سمجھنے اور اُس پر متعلقہ فریقین کے خلاف کاروائی یا رابطوں میں آسانی رہے گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی شکایت کا تعلق کسی ایک فرد یا شعبے یا محکمے سے نہ ہو اور اُس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے خفیہ اِداروں کی مدد بھی لینا پڑے۔ اِسی طرح اگر گورنرہاو¿س سے رجوع کرنے کے لئے ویب سائٹ اور مختلف آپریٹنگ سسٹمز کے لئے الگ الگ موبائل فون ایپ (app) کر دی جائے تو بھی نہ صرف شکایات بمعہ ثبوتوں کے اندراج میں مدد ملے گی بلکہ اِس سے تحریک انصاف کی مرکزی تنظیم (@PTIofficial)‘ خیبرپختونخوا تنظیم (@PTIKPofficial) اور ضلع پشاور کی تنظیم (@PTIPeshawar) کے لئے بھی ممکن ہوگا کہ وہ گورنر ہاو¿س کی ’ممکنہ مثالی کارکردگی‘ کا چرچا کر سکیں۔ اپنی جگہ یہ بات قابل ذکر و فخر تو ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’تحریک انصاف‘ واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی اعلیٰ قیادت سوشل میڈیا اکاو¿نٹس کا استعمال کرتی ہے اور صوبائی ہو یا وفاقی حکومت‘ ہر سطح پر ہونے والی ’خاص سرگرمیوں‘ اور حالات حاضرہ سے متعلق تبصرہ یا کسی وضاحت کے لئے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس ہی کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن صرف یہی پیشرفت کافی نہیں کیونکہ ایسی چند ایک ہی مثالیں اُنگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہیں‘ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سرکاری اہلکاروں اور دفاتر کی کارکردگی سے متعلق منظرعام پر آنے والی ’عوامی شکایات‘ کا خاطرخواہ سنجیدگی سے نوٹس لیا گیا ہو اور شکایات کی معافی تلافی ہو سکی ہو۔ البتہ صوبائی حکومت کی ہر سطح پر سوشل میڈیا اکاو¿نٹس اور شکایات مراکز فعال ہیں‘ جن کی خاطرخواہ فعالیت اور اِن شکایاتی مراکز کی کارکردگی کے احتساب سے عام آدمی (ہم عوام) کی وابستہ توقعات پوری ہو سکتی ہیں۔تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما شاہ فرمان خان کا تعلق پشاور سے ہے۔ آپ 2013ءاور 2018ءمیں (PK-71) سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں جبکہ 16 ستمبر 2018ءکے روز آپ کا نام بطور گورنر خیبرپختونخوا نامزد ہوا جس کے بعد 4 ستمبر 2018ءکے روز آپ نے صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیا اور 5 ستمبر 2018ءکے روز بطور 32ویں گورنر حلف اُٹھایا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور سے صوبائی اسمبلی کی 14 نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر 5 اراکین صوبائی اسمبلی سمیت ضلع پشاور کی نمائندگی 19 اراکین کرتے ہیں اور یہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی ضلع کی سب سے زیادہ نمائندگی ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا کا تعلق بھی پشاور اور صوبائی حکمراں جماعت سے ہے تو جس ضلع سے منتخب ہونے والوں میں تحریک انصاف کی اکثریت ہو اور حسن اتفاق سے صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی تحریک انصاف ہی کے نام ہوں وہاں اگر اہل پشاور کی داد رسی نہ ہو تو اِس کے لئے کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہی جماعت کے اراکین کی عددی اکثریت فیصلہ کن ہے۔گورنر ہاو¿س پشاور میں شکایات درج کرانے کا مرکز قائم ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد پشاور میں طالبات کا ایک احتجاجی مظاہرہ سامنے آیا۔ پینافلیکس بینر اُٹھائے طالبات نے وائس چانسلر (اِنتظامیہ) کے دفاتر تک مارچ کیا۔ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے اُور گورنر خیبرپختونخوا سمیت صوبائی حکومت کی توجہ اِس جانب دلائی کہ اساتذہ اور طلبا طالبات کو ہراساں کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ متعلقہ قانون (ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010ئ) کی روشنی میں ہر ادارے میں ایک ”ہراسمنٹ کمیٹی“ قائم ہونی چاہئے تاکہ اساتذہ کی جانب سے ممکنہ دھمکیوں اور دیگر محرکات (دباو¿ یا پریشانیوں) کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری یا نجی تعلیمی ادارے بالخصوص جامعہ میں اِس قسم کا واقعہ ہی پیش نہیں آنا چاہئے تھا۔ دوئم تعلیمی اداروں کی سطح پر طلبا و طالبات کی شکایات کے ازالے کے لئے موجود نظام غیرمو¿ثر (ناکافی) کیوں ہے؟ سوم اِس قسم کے واقعات پہلی مرتبہ رونما نہیں ہوئے اور ماضی میں اِسی قسم کی شکایات پر خاطرخواہ کاروائیاں کی جاتیں تو ایک مرتبہ پھر شکایات نہ ملتیں اور اِس مرتبہ تو طالبات کے صبر کا پیمانہ اِس حد تک لبریز ہوا کہ وہ ایک دوسرے کی حمایت میں جمع ہوئیں اور معاملہ احتجاج جیسی انتہا تک جا پہنچا۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کا ماحول یہ ہوگا کہ وہاں طالبات خود کو محفوظ نہیں سمجھیں گی تو اندیشہ ہے کہ پردے کے معاملے میں سخت گیر مو¿قف رکھنے والے خاندان اِس صورتحال کے مدنظر اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے عمل سے الگ کر دینگے یا اُنہیں اجازت ہی نہیں دیں گے۔حکومت کوان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے اِس مسئلے‘ معاملے اور قضیے کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا ہے‘ جن پر طالبات کو اطمینان اور تسلی تشفی ہو۔ بات انتہا تک پہنچ چکی ہے تو اِسے انتہائی اہمیت دینا ہوگی۔