گلگت بلتستان کے 10 اضلاع پر مشتمل چوبیس رکنی قانون ساز اسمبلی کے عام اِنتخابات کا مرحلہ آج (پندرہ نومبر) مکمل ہونے جا رہا ہے‘ جس میں مجموعی طور پر 7 لاکھ 45 ہزار 361 رجسٹرڈ ووٹر اپنا حق رائے دہی اِستعمال کریں گے اور اگرچہ مرد ووٹروں کی تعداد(54 فیصد) ہے لیکن خواتین (3لاکھ 39ہزار 992) کا ووٹ بینک بھی یکساں اہم بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا کیونکہ اگر گلگت بلتستان میں خواندگی کی شرح پاکستان کی نسبت کم ہے اور خواتین کی شرح خواندگی 21.65فیصد جبکہ مردوں کی 52.62فیصد ہے لیکن سیاسی شعور بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ قومی سیاست کرنے والی سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے نمائندے اور منشور ’انتخابی میدان‘ میں اُتارے ہیں۔ چوبیس انتخابی حلقوں پر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے چوبیس چوبیس جبکہ نواز لیگ کے بائیس‘ مسلم لیگ (قائد اعظم) کے تیرہ‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے بارہ‘ اسلامی تحریک پاکستان کے آٹھ‘ مجلس وحدت مسلمین کے چار جبکہ جماعت اسلامی نے تین امیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے ایک ایک خاتون کو بھی بطور اُمیدوار نامزد کیا ہے اور گلگت بلتستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں سے اُسی جماعت کے نامزد اُمیدواروں کی اکثریت کامیاب ہوتی ہے‘ جس کی وفاق (اسلام آباد) میں حکومت ہو کیونکہ گلگت بلتستان کی حیثیت عبوری صوبے کی ہے۔ اِس عمومی انتخابی و سیاسی رجحان کو تبدیل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی مرکزی قیادت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور انتخابی مہم ختم ہونے کے آخری لمحات تک سرگرم رہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے قریب تیس دن میں چالیس سے زیادہ جبکہ مریم نواز نے تیس سے زیادہ انتخابی اجتماعات سے خطاب کیا جن میں اُن کے دورے کے آخری روز یکے بعد دیگر چار مختلف مقامات پر انتخابی جلسے شامل تھے۔ سیاسی رہنماو¿ں کی یہ محنت رنگ لائے گی یا نہیں لیکن اِس سے پیدا ہونے والا ’سیاسی ارتعاش‘ بعداز انتخابات بھی جاری رہنے کے آثار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس مرتبہ بظاہر آسان دکھائی دینے والے انتخابات کے چند حلقوں پر غیرمتوقع نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور اُمید یہ بھی ہے کامیاب و ناکام ہونے والے کم سے کم اتنا احسان تو کریں گے کہ وہ انتخابات کی شفافیت پر سوال نہیں اُٹھائیں گے!انتخابی مہم کے دوران عوامی رائے پر مبنی جائزے (گیلپ سروے) سے معلوم ہوا تھا کہ تحریک انصاف گلگت بلتستان کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے جو باآسانی سادہ اکثریت حاصل کر لے گی اور اِسی عددی اکثریت کے بل بوتے پر اِسے حکومت بنانے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اگر انتخابی عمل میں اِسے ایک دو نشستوں کا خسارہ برداشت کرنا بھی پڑا تو اُسے باآسانی مجلس وحدت مسلمین یا نواز لیگ و پیپلزپارٹی کے علاوہ دیگر جماعتوں یا کامیاب ہونے والے آزاد اراکین سے پورا کر لیا جائے گا۔ بہرحال ثقافت اور قدرتی حسن سے مالامال خطے میں (گلگت سے ہنزہ اُور دیامر سے اِسکردو) رنگ برنگے پارٹی پرچموں کی بہار دیکھی جا سکتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ تاریخی ریاست جموں و کشمیر سے الگ ہو کر 1948ءمیں اِس دیو مالائی حسن‘ برف پوش پہاڑوں‘ خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغات جیسی جنت میں رہنے والوں نے پاکستان کا انتخاب کیا جو جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے بھی انتہائی اہم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا ’گیٹ وے‘ ہے‘ اِس کی سرحدیں دو جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک چین و بھارت اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔گلگت بلتستان‘ کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہوتا ہے پہلے یہاں پر ’اسٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافذتھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے‘ سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا لیکن 1970ءکی دہائی میں اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اسے ختم کردیا گیا تھا جس کے بعد گلگت بلتستان میں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کی اکثریت کا مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان کا باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہئے اور اسے مستقل طور پر پاکستان میں ہی ضم کر لیا جائے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے چوبیس حلقوں ہیں لیکن قانون ساز اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 33 ہے جس میں 3ٹیکنوکریٹس اور 6خواتین اراکین ہوتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے دھاندلی قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے اِس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لئے وسائل اور اثرورسوخ استعمال نہ کرے۔ بہرحال وزیراعظم نے اپنی تقریر کا بیشتر حصہ پاک فوج کی قربانیوں کیلئے وقف کئے رکھا اور جس کے ساتھ یہ بڑا اعلان بھی کیا کہ وہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بنائیں گے۔ تحریک انصاف وفاق میں حکومت ہونے کی وجہ سے فائدے میں ہے کیونکہ کشمیر ہو یا گلگت بلتستان‘ یہاں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی حکومت وفاق میں موجود ہو۔ اِس سے قبل نواز لیگ اور اُس سے پہلے پیپلز پارٹی باری باری گلگت بلتستان میں حکومت کر چکی ہیں لیکن اِس مرتبہ اِن بڑی جماعتوں سے زیادہ چھوٹی جماعتیں انتخابی جیت کے لئے پراُمید نظر آرہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ طاقتور حلقے کیا چاہتے ہیں اور وہ انتخابات پر کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اصل ضرورت گلگت بلتستان کو پرامن اور سیاسی طور پر مطمئن دیکھنے کی ہے‘ کونسی سیاسی جماعت کامیاب اور ناکام ہوتی ہے یہ ضمنی بات ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات گلگت بلتستان سے دور رکھنے چاہئے تھےجس نے صدیوں سے سماجی طور پر اکٹھا رہنے والوں کو تقسیم کر دیا ہے اور جہاں سیاست و انتخابات تقسیم کرنے کا باعث بنیں وہاں دائمی خوشحالی‘ پائیدار ترقی اور وسیع البنیاد استحکام باوجود خواہش بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت ایک ایسے طرزفکروعمل کا نام ہے‘ جس میں جماعتی (سیاسی) مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کئے جاتے ہیں اور پاکستان کا طرز سیاست ابھی اِس خوبی سے آراستہ ہو کر اُس بلندی تک نہیں پہنچا‘ جہاں عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی بجائے اُنہیں اطمینان دلایا جائے کہ ریاست ہر مقصد‘ چاہت اور مفاد سے بالاتر ہے۔