قومیں حسب حال فیصلوں اور بہادری کے عملی مظاہروں کی روشنی میں آگے بڑھتی ہیں اور اِسی سلسلے میں ایک روشن مثال رواں ہفتے سامنے آئی ہے جب سندھ پولیس کے ایک اہلکار کی غیرمعمولی جرا¿ت و بہادری کے مظاہرے نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ کی بھی توجہ حاصل کی ہے اُور جب یہ بات وزیراعظم عمران خان کے علم میںآئی تو وہ بھی خود کو مذکورہ پولیس اہلکار کی تعریف کرنے سے نہ روک سکے۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹر پیغام میں سندھ پولیس کے مذکورہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد بخش بروڑو (حقیقی قومی ہیرو) کو خراج تحسین پیش کیا اور اُس سے ہوئی ٹیلی فونک بات چیت کے بعد سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا‘ جس میں کہا کہ پولیس اہلکار کی بہادری سے یقینا سندھ پولیس کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ وہی پولیس اہلکار ہے‘ جس نے کشمور میں ایک خاتون اور اس کی کم عمر بیٹی سے زیادتی کرنے والے بااثر اور دہشت گرد ملزم کی گرفتاری کے لئے بچھائے گئے جال میں اپنی بیٹی کو پیش کیا تھا اور اپنے اِس عمل سے غیرمعمولی مثال قائم کی‘ جو رہتی دنیا تک پاکستان پولیس کی تاریخ کا حصہ رہے گی۔ اِس طرح کی جرا¿ت و بہادری‘ جانثاری اور فرض کی ادائیگی میں اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کو بیک وقت داو¿ پر لگانے کی کوئی دوسری مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ سندھ حکومت کے ترجمان نے کشمور کے بہادر اہلکار کی بہادر بیٹی کو 10لاکھ انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا بہادربیٹی نے جس بہادری کامظاہرہ کیا اس کے مشکور ہیں، بہادری پر سول ایوارڈ کے لئے وفاقی حکومت سے رجوع کریں گے ، محمد بخش کی بیٹی اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اخراجات اٹھائیں گے‘یہی وجہ ہے کہ پولیس اہلکار نے حکومت کو بھی مجبور کیا ہے کہ وہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے تحفظ اور اُن سے زیادتی کرنے والے مجرموںکو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے زیادہ سنجیدگی سے سوچیں اور اِس ہدف کے حصول کے لئے موجودہ طریقہ¿ کار پر نظرثانی کریں۔ بہرصورت ’جرا¿ت کا جواب جرا¿ت سے دیتے ہوئے‘ وفاقی حکومت نے زیادتی کی عدالتی سماعتوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کےلئے ”خصوصی عدالتوں“ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سے قبل انسداد دہشت گردی کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں جن کے ذریعے دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ نہ صرف نسبتاً کم وقت میں ہونے لگا بلکہ اُن کے ذریعے گواہوں کے تحفظ اور شواہد کی جانچ پڑتال کے نئے اصول و معیارات بھی مقرر ہوئے‘ جن کی وجہ سے دہشت گردی اور اِس میں سہولت کاری کرنے والوں کو فوری سزائیں دینے کے عمل کا آغاز ہوا۔ شنید ہے کہ زیادتی میں ملوث کرداروں کو سزائیں دینے کے لئے خصوصی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون رواں ماہ کے اختتام سے پہلے متعارف کروایا جائے گا‘ جس میں گواہوں کے تحفظ کے لئے خاص اقدامات اور اس مقصد کےلئے علیحدہ پروسیکیوشن (استغاثہ) نیٹ ورک کے تشکیل شامل ہے۔ اِس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے پیغام سے بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے جس میں اُنہوں نے اِس عزم کا اعلان و اظہار کیا یقینا اُن کی مراد یہی ہے کہ زیادتی کے مقدمات میں ملزمان قانون میں موجود جس سقم کا فائدہ اُٹھا کر ’باعزت بری‘ ہو جاتے ہیں اُنہیں تبدیل کیا جائے۔‘ قوانین کے اِس سقم کو وزیراعظم نے ”نقائص“ سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ جرم کے حوالے سے قانون میں موجود نقص دور کریں گے اور ایک سخت اور مجموعی انسداد زیادتی قانون (ریپ آرڈیننس) لائیں گے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اِس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ بابراعوان جو وزیراعظم کے مشیر ہونے کے علاو¿ہ قانون سازی کے لئے قائم خصوصی کابینہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں‘ خود بھی زیادتی کے موجودہ قوانین میں موجود خامیوں کی کئی مرتبہ نشاندہی کر چکے ہیں۔ عوام کے نکتہ¿ نظر سے دیکھا جائے تو صرف زیادتی ہی نہیں بلکہ ہر قانون نظرثانی کا متقاضی ہے کیونکہ قوانین میں موجود نقائص ہی کی وجہ سے تھانہ کچہری اور پٹوارخانے و مال خانے کے شعبے عام آدمی کے استحصال کا مو¿جب بنے ہوئے ہیں۔ اُمید یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے ملک کے مختلف حصوں میں زیادتی کے واقعات میں اضافے پر جس انداز میں تشویش کا اظہار کیا ہے اُور تکنیکی طور پر‘ جس قانونی طریقے سے اِس معاملے کو حل کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں تو اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے اُور یہ خبر و عزم دیگر خبروں تلے دفن نہیں ہو جائے گی۔ انسداد زیادتی سے متعلق مسودہ¿ قانون تیار کرنے کے لئے قانونی ٹیم کو دی گئی ہدایات میں ’چار بنیادی امور یا پہلوو¿ں‘ کا احاطہ متوقع ہے جس میں سب سے پہلا اَمر یہ ہے کہ زیادتی کے متاثرہ فرد کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور اُس کے مقدمے میں گواہوں کو بھی یکساں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہمارے ہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون اُور اُس کے گواہ زیادتی کے بعد اِس طرح زیادتی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اُور اُن کا عدالت کے علاوہ میڈیا ٹرائل بھی شروع ہو جاتا ہے! نئے قانون کے تحت ”ریپ کیسز“ کی تحقیقات عام پولیس عہدیداروں کے ذریعے نہیں بلکہ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) یا سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کی سطح تک کا گزیٹڈ آفیسر کی زیرنگرانی ہوں گی۔ مجوزہ قانون میں مقدمات جلد از جلد نمٹانے کے لئے بھی اقدامات تجویز کئے جائیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں زیادتی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اُور گزشتہ چند برسوں میں اکیس ہزار سے زائد زیادتی کے واقعات میں مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں سے صرف چند سو ہی ایسے ناقابل تردید یا دستاویزی شواہد رکھتے تھے کہ اُن کی عدالتوں میں سماعت نتیجہ خیز ثابت ہوتی‘ اصل نقص قانون میں ہے اُور یہی وجہ ہے کہ بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کےلئے ایک نیا اور علیحدہ استغاثہ کا نظام قائم کیا جائے گا اُور اس طرح کے مقدمات میں متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کےلئے سزایافتہ افراد کی جائیدادیں ضبط کی جائیں گی‘ زیادتی کی روک تھام کے لئے مغربی ممالک کے قوانین‘ عدالتی نظام اُور تفتیشی مثالوں کی بجائے اگر شرعی اصولوں اُور سزاو¿ں پر من و عن عمل درآمد کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ آزمائش شرط ہے۔