خدمات کی قیمت

نیشنل ڈیٹابیس اِینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی خدمات میں سرفہرست ”کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ “ کا اجراءہے جو غیرمعمولی حالات میں ”ناگزیر ضرورت‘ ‘بن چکا ہے اور قدم قدم پر ’سی این آئی سی ‘ کہلانے والی اِس شناختی دستاویز کی ضرورت پڑتی ہے بالخصوص جب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے تجویزکردہ سخت گیر قومی مالیاتی نظم و ضبط لاگو ہوا‘ اور اُس کی روشنی میں قانون سازی کی گئی تو بینکوں سے لین دین کے اکثر معاملوں میں شناختی کارڈ کی نقل (فوٹو سٹیٹ کاپی) طلب کی جاتی ہے۔ کھاتہ داروں اور بینک سے عمومی رجوع کرنے والوں کے لئے یہ اِضافی بوجھ مل بانٹ کر آسان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایک فوٹو کاپی پانچ‘ آٹھ یا دس روپے کے عوض ملتی ہے۔ قواعد و ضوابط تشکیل دینے میں عوام کی سہولت کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ پوری قوم کے لئے مالیاتی نظام کو ہر دن پہلے سے زیادہ سخت بنایا جا رہا ہے۔ جو نجی کاروباری اپنی آمدن سے متعلق حلفیہ دروغ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں اُن کی گرفت تو نہیں ہوئی اور نہ ہی اُن لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ہیں‘ جو پاکستان کے ٹیکس نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اُٹھا چکے ہیں یا اُٹھا رہے ہیں یہ الزام نہیں بلکہ اِس بات کا ذکر وزیراعظم کے سابق مشیر شبر زیدی نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کیا ہے ۔ المیہ ہے کہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو جھانسہ دینے والوں کی بجائے عوام کو سزا دی گئی ہے‘ جنہیں بہ امر مجبوری اور حسب ضرورت جب کبھی بینکاری سے استفادہ کرنا پڑتا ہے تو بینک صارف سے قومی شناختی کارڈ کی نقل (فوٹوکاپی) طلب کرتے ہیں جبکہ بینکوں کے پاس فوٹوکاپی کی سہولت موجود ہونے کے باوجود صارف کی سہولت کاری نہیں کی جاتی۔ فیصلہ سازوں نے بیک جنبش قلم یہ فیصلہ تو کردیا کہ ہر چھوٹی بڑی مالیاتی لین دین کے موقع پر بینک صارف سے شناختی کارڈ کی نقل طلب کریں لیکن یہ نہیں سوچا کہ اگر بینک کی شاخیں فوٹواسٹیٹ کی سہولت نہیں دیں گی اور بینکوں کے آس پاس بھی فوٹوسٹیٹ کی دکانیں نہیں ہوں گی تو ایسی صورت میں صارف کیا کرے گا؟ انگوٹھے کے ذریعے شناخت کی موجودگی میں قومی شناختی کارڈ کی نقل کرنے کے فیصلے پر 2 وجوہات سے نظرثانی ہونی چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت کے لئے ”سہولت کی ضرورت“ پیش نظر رکھنی چاہئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فوٹو کاپیئر (مشین)‘ اِس کے پرزہ جات‘ کاغذ اور اِس میں استعمال ہونے والی روشنائی (ٹونر) درآمد ہوتے ہیں اور اگر فوٹوسٹیٹ کا استعمال یوں بڑھتا رہا تو اِس سے پاکستان کی درآمدات میں لامحالہ اضافہ ہوگا جبکہ حکومت کا عزم اور دعویٰ ہے کہ درآمدات کی بجائے برآمدات میں اضافہ ہونا چاہئے اور دوسری طرف ایسے فیصلے لاگو ہیں جن سے درآمد ہونے والی اشیا ءکا استعمال ہو رہا ہے تو اِس قسم کے اقدامات اپنی ذات میں تضادات کا مجموعہ ہیں۔ نادرا کا قیام بیس برس قبل (10 مارچ 2000ئ)ہوا‘ جس کے بعد (سال 2002ئ) سے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈوں کے اجراءکا سلسلہ جاری ہے اور سال 2012ءکے اختتام تک ”نادرا‘ ‘نے 10 کروڑ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ جاری کرنے جیسا سنگ میل عبور کر لیا تھا۔ آج پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز رکھتی ہے جو صرف شناختی ہی نہیں بلکہ قانونی دستاویز بھی ہے لیکن مسئلہ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے سے متعلق خدمات کے اُس مقررہ معاوضے کا ہے‘ جو عام آدمی کی ہر دن کم ہوتی قوت خرید سے متعلق ہے اور کسی بھی زاویئے سے دیکھا جائے تو نئے یا تجدیدی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے حصول کی قیمت مبنی برانصاف نہیں۔ قضیہ یہ ہے کہ قومی شناختی کارڈ پر درج مدت اگر ختم ہو جائے تو 31دن میں کارڈ کی تجدید کروانے کی قیمت 750روپے‘ 23 دن میں فوری تجدید 1500 روپے اور 7 دن میں انتہائی فوری تجدید (ایگزیکٹو دفاتر سے) 2500 روپے مقرر ہے جبکہ کارڈ گم ہونے کی صورت میں نیا شناختی کارڈ (اکتیس دن میں) 400 روپے کے عوض‘ 23دن میں فوری شناختی کارڈ 1150روپے اور 7 دن میں انتہائی فوری (ایگزیکٹو ) کارڈ 2150 روپے میں بنوایا جاسکتا ہے۔ یہی قیمت سمارٹ کہلانے والے ’قومی شناختی کارڈ‘ کی بھی ہے‘ جس میں سم نصب ہوتی ہے۔ قومی شناختی کارڈ سمارٹ ہو یا عمومی‘ اِس کی مقررہ قیمت ہر کس و ناکس کے لئے ”یکساں“ ہے جبکہ ضرورت درخواست گزاروں کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھنے کی بھی ہے۔ ایک ایسا مرد یا عورت کے لئے بالخصوص قومی شناختی کارڈ کی بھاری قیمت (فیس) ادا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا اِس بات کا اندازہ صرف اُنہیں ہو سکتا ہے جو اِس تجربے اور مشاہدے سے گزرے ہوں۔ جمہوریت میں ہر خاص و عام کی رائے (ووٹ) کی اہمیت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن کوئی بھی معاشرہ مالی طور پر ایک جیسی اکائیوں کا مجموعہ نہیں ہوتا تو جمہوریت ہر قسم کے افراق و تفریق کی نفی کرنے کے وضع کردہ نظام ہے لیکن اِس پر عوام کے حسب حال (حقیقی) نمائندوں کی بجائے ایسے خواص نے قبضہ کر رکھا ہے جن کا رہن سہن‘ بودوباش اُور مالی حیثیت عام آدمی (اکثریت) سے قطعی مختلف ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اُنہیں سرکاری اِداروں سے رجوع کرنے والوں کے لئے خدمات کی قیمت (فیسیں) مقرر کرتے ہوئے اِحساس بھی نہیں ہوتا کہ اِس سے عام آدمی (ہم عوام) پر کیا گزرے گی اور پاکستان اُس یورپ یا امریکہ کا حصہ نہیں جہاں اُن کے اثاثے اور اہل و عیال محفوظ ہیں بلکہ پاکستان کی مالی حقیقت اُور اِس حقیقت کا سامنا کرنے والوں کی حیثیت (مالی قوت برداشت) مدنظر رکھنی چاہئے۔ برائے اطلاع عرض ہے کہ جون2020ءمیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 40 فیصد ہے جبکہ یہ تعداد 2015ءمیں 24.3 فیصد تھی۔ غربت بڑھنے کی ایک وجہ ’کورونا وبا‘ کے سبب کاروباری سرگرمیوں پر عائد ہوئی پابندیاں (لاک ڈاو¿ن) بھی رہا جبکہ عالمی معاشی بدحالی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں‘ جو متقاضی ہیں کہ حکومتی اِداروں کی جملہ خدمات کی قیمتوں پر نظرثانی کی جائے اور عام آدمی کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تو سہولت بھی آنی چاہئے۔ ”ماتھے پر شکن کوئی نہ احساس ندامت .... وہ کٹتے سروں کو کبھی گنتا ہی نہیں تھا (اُمت بجاج)“