گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک محترم کے ساتھ بحث چل پڑی جو ماضی کی درخشندہ روایات کو سامنے لانے کی مخالف سوچ کے حامل گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کاخیال ہے ماضی کو چھوڑ کر حال کی فکر کرنی چاہئے ان کی سوچ پر اعتراض تو کیاجاسکتاہے مگر شبہ نہیں کیاجاسکتادوسری طرف بہت کم لوگ اس سوچ کے حامل ہیں کہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے حال کی اصلاح کرکے تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھاناچاہئے با ت سمجھنے کے لئے یہ مثال کافی ہوگی کہ ایک طالب علم سوچتا ہے کہ ا±سے ایسا کیریئر اختیا رکرنا ہے جس کے ذریعہ اچھا روزگار حاصل ہو۔ دوسرا طالب علم سوچتا ہے کہ ا±سے ایسا کیریئر اختیار کرنا چاہئے جس کے ذریعہ ا±سے اچھا روزگار تو ملے مگر خدمت خلق کا بہترین موقع بھی میسر آئے۔ تیسرا طالب علم سوچتا ہے کہ ا±سے ایسے کیریئر سے دلچسپی ہے جس کے ذریعہ وہ بہترین روزگار بھی پائے، معاشرہ میں اس کا مقام و احترام بھی ہو، ملک و قوم کا نام بھی روشن ہو اور ا±س کے کارناموں سے خلق خدا برسہا برس فیض یاب بھی ہو۔ اگر تین مختلف طریقو ں سے سوچنے والے ایسے تین طلبہ سامنے ہوں تو یقیناً ہر خاص و عام کہے گا کہ تیسرے طالب علم کی سوچ کا دائرہ زیادہ وسیع ہے اور قوم و ملت کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔اگر ہمارے معاشرہ کے60 فیصد طلبہ پہلی قسم کے طالب علم کے انداز میں سوچ کر کوئی مناسب کیریئر اختیار کرتے ہیں جس سے ا±نہیں اچھا روزگار حاصل ہوجاتا ہے تو کچھ مضائقہ نہیں مگر کم از کم 20فیصد طلبہ کو دوسرے طالب علم کی طرح نسبتاً بہتر انداز میں سوچنا چاہئے اور اچھے روزگار کے حصول کے ساتھ ہی ملک و قوم کیلئے نافع بننے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔ رہ گئے10فیصد تو ا±نہیں تیسرے طالب علم کے انداز میںسوچتے ہوئے کیریئر کے ا±ن مواقع کی جستجو میں رہنا چاہئے جن کے ذریعہ وسیع تر مقاصد پورے ہوں اور د±نیا تسلیم کرے کہ یہ فلاں کا کارنامہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم اپنے ا±س ماضی سے استفادہ کرتے ہوئے مستقبل کی دوڑ میں شامل ہوسکیں گے جس میں ریاضی، علم نجوم و فلکیات، طب، علم کیمیا اور ایسے ہی کئی دوسرے علوم میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا جبکہ د±نیا کی کوئی قوم ان علوم کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھی۔ جب ا±ن قوموں کا شعور بیدار ہوا تو وہ مسلم د±نیا کی طرف کشکول لے کر دوڑنے لگیں تاکہ کچھ حاصل کرلیں۔ پھر جو کچھ حاصل کیا ا±س پر انہوں نے اپنی ترقیات کی بنیاد رکھی اور رفتہ رفتہ حالات بدلنے لگے۔ مغرب کے بے شماراہل علم و قلم یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ا±نہوں نے جو کچھ بھی سیکھا وہ مسلم د±نیا سے سیکھا۔ اس میں بالکل بھی مبالغہ نہیں ہے کہ مغرب کی حیران کن ترقی مسلمانوں کے انکشافات و ایجادات کی مرہون منت ہے۔ مگر چونکہ مسلمان علم سے اپنا رشتہ استوار نہیں رکھ پائے اور دھیرے دھیرے پیچھے رہتے گئے اس لئے حالات اس حد تک بدل گئے کہ آج ا±نہیں یہ بھی علم نہیں کہ عالمی تاریخ کا دامن کس حد تک ا±ن کے کمالات سے بھرا ہوا ہے۔ اہل مغرب نے ایک عرصہ تک ان کمالات کا اعتراف کیا مگر جب ا±ن کے اپنے کارناموں کی تعداد بڑھتی گئی اور ا±ن کے پاس پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا موقع نہیں رہا، پھر بخل اور غرور آگیا اور مسلم دشمنی بھی سر ا±بھارنے لگی تو وہ اعتراف کی ضرورت سے بہت آگے نکل گئے۔ اس کے بعد کا حال کسی سے مخفی نہیں۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی میں ا±نہی کا بول بالا ہے جبکہ عالمی مسلم معاشرہ صرف صارف بنا ہوا ہے۔ کشکول، خیرات دینے والوں کے ہاتھوں میں آگیا۔کاش مسلم معاشرہ اوپر دی گئی مثالوں میں بالخصوص تیسری قسم کے طلبہ پیدا کرنے لگ جائے جو سائنسی انکشافات اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کے جھنڈے گاڑ دیں۔ اس سے مسلم معاشرہ کو نئی توانائی ملے گی، آثارِ زوال ختم چھٹنے لگیں گے اور اس میں اتنی سکت پیدا ہوگی کہ اہل جہاں کو پکار سکے کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے چنانچہ اپنے ماضی سے جڑے رہنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ اس وقت ملت اسلامیہ جس مجموعی احسا س کمتری کاشکار چلی آرہی ہے اس سے نکلنے کاراستہ بھی یہی ہے دنیا کی کوئی قوم بھی اپنے ماضی سے ناطہ نہیں توڑتی کیونکہ ماضی ایک ایسا آئینہ ہوتاہے جس میں قومیں اپنا حال دیکھ کر تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھاتی ہیں ان مساعد حالات میں بھی یہ خبریقینا حوصلہ افزاءہے کہ کورونا ویکسین کی تیاری میں دو مسلمان ماہرین نے بنیادی کردارادا کیاہے سو ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوانوں کو مستقبل کے لئے تیار کرناچاہئے ‘ہم اپنے نوجوانوں کو اس سمت میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے کہ تحقیق کے میدان میں قو م وملت کی شناخت بن جانے والے کارہائے نمایاں دینے لگ جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب ہماری سمت درست ہوچکی ہے مقصد کے حصول کے لئے بنیادی راستہ صرف اورصرف یہی ہے کہ احساس کمتری سے نکلاجائے عروج و زوال قوموں کی زندگی میں آتے رہتے ہیں کامیابی صرف وہی اقوام حاصل کرپاتی ہیں جو اپنے زوال کے اسباب پرغور کرکے ان سے نکلنے کے راستے تلاش کریں اور اب ہمیں بھی اسی طرح سوچناہوگا سیاسی جماعتوں اورسو ل سوسائٹی کو نوجوانوں کو تیار کرنے میں کردارضرور اداکرناہوگا سیاست ہوتی رہے گی فروغ علم کے لئے بھی تو کوئی سامنے آئے ۔