تعلیمی اداروں میں ہراسانی

اسلامیہ کالج یونیورسٹی ملک کا اعلیٰ و تاریخی تعلیمی ادارہ ہے۔ جس کی وجہ سے اس خطے کے ہزاروں، لاکھوں طلباءاور طالبات نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں نام کمایا بلکہ اس کی جڑوں نے پھیل کر پشاور یونیورسٹی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور صوبہ میں درجنوں دیگر سرکاری اورنجی یونیورسٹیوں میں تبدیل ہوکر خیبرپختونخوا میں نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرایا ‘اسلامیہ کالج کی صورت میں لگایا جانے والا ایک چھوٹا سا پودا آج نہ صرف کئی دیگر یونیوسٹیوں کو جنم دے چکا ہے بلکہ خودبھی یونیورسٹی میں تبدیل ہوکر ایک تناور درخت بن چکاہے۔ اس ادارے کا نام اور تاریخی اہمیت کی حامل سرخ اینٹوں سے بنی اس کی عمارت اس خطے کی پہچان ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ دنوں اس ادارے کے حوالے سے کئی ایسی شکایات سامنے آئیں جس نے نہ صرف والدین بلکہ معاشرے کے ذمہ داروں کو بھی اس بات پر مجبور کردیا کہ حکومت سے مطالبہ کرے کہ ان شکایات کی تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے ‘ گزشتہ روز اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی بے شمار طالبات نے طلباءکے ہمراہ ہراسانی کے خلاف ایک مظاہرہ کیا ‘کسی کو گولڈ میڈل دلانے، کسی کو پاس کرانے اور کسی کو زیادہ نمبر دلانے کیلئے ایسے واقعات رونماہوتے ہیں‘ طالبات کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروںکے عملے کے ارکان طالبات کو صاف کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنی ہے تو ان کی شرائط پوری کرنی ہوں گی کچھ کے مطابق ان کوباہر ملنے کی دعوتیں بھی ملتی رہتی ہیں،استاد اور طالبعلم کا رشتہ والدین اور بچوں کا رشتہ ہے مگر ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں چند اساتذہ، کلرک اور دیگر عملہ اس رشتے کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔ طلباءاور طالبات کی جانب سے احتجاج کے بعد چانسلر گورنر خیبر پختونخوا اور اعلیٰ تعلیم کی وزارت نے اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا اعلان کیا ہے ۔خداکرے کہ حکومت واقعی اس قسم کے واقعات کے تدارک میں سنجیدہ ہو اور چند دنوں بعد اس واقعے کو اور اس کی تحقیقات کو سردخانے میں نہ بھیج دیاجائے۔ ہمارے ملک کی کسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے سے ملنے والی یہ پہلی شکایت نہیں کچھ عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں اس قسم کی شکایات درج کی گئیںا ور ذمہ داروں کو سزابھی دی گئی۔ اس کے باوجود دیگر اداروں میں ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہراسانی کی اگرچہ زیادہ تر شکایات خواتین کے حوالے سے ملتی ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لڑکوں میں بھی یہ شکایات سکول، کالج اور دیگر اداروں میں عام ہیں۔ بیشتر واقعات ایسے ہیں جن میں طلباءنہ تو کسی استاد یا پرنسپل کو شکایت کرسکتے ہیں نہ ہی گھر میںوالدین یا بڑوں کو۔ وہ ذہنی طورپر اذیت کا شکار چلے آتے ہیں مگر اساتذہ اور عملے کے ارکان سدھرنے کا نام نہیںلیتے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات اور طلباءکے مظاہروں اور احتجاج کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے نہ صرف سرکاری ا ور نجی یونیورسٹیوں بلکہ صوبہ بھر کے کالجوں، ہاسٹلوں، سکولوں برائے طلباءاور طالبات میں ایسا نظام نافذ کریں اور باقاعدہ ایسی انسپکشن کریں کہ اساتذہ یا عملے کے ارکان کسی طالب علم یا طالبہ کا استحصال نہ کرسکیں۔ ان کے جذبات کے ساتھ کھیل کر ان کو ذہنی مریض نہ بناسکیں اور پاس کرانے اور نمبر اور پوزیشن دلانے کے بہانے تعلیمی اداروں جسے مقدس مقامات پر ایسے واقعاتکا سلسلہ مکمل طورپر بندہو۔ ہمارے معاشرے کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا اور ان افرادکی نشاندہی کرنا ہوگی تاکہ دوسرے ان کی سزا اور بدحالی سے سبق سیکھیں اور طلباءو طالبات کو مثبت اور بہتر ماحول میں علم حاصل کرنے کا موقع دیں‘کیوں کہ والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کےلئے بھیجتے ہیں۔ساتھ میں والد ین کو بھی چاہئے کہ وہ اس حوالے سے اپنی بچیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں اوران کو حوصلہ دلائیں کہ اگر کو ئی ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرے تو وہ کھل کراپنے والدین کو سب کچھ بتاسکیں ہمارے ہاں ایسے معاملوں میں استحصال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ بدنامی کے خوف سے خاموشی سے اختیار کرلی جاتی ہے اس قسم کے جرائم کے خلاف آوازبلندکرنے والی بچیوں کی حوصلہ افزائی کرنا پورے معاشرہ کی ذمہ داری ہے ۔