اَنوکھے جرم

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ٹریفک پولیس اہلکار نے ایک موٹرسائیکل پر10 سواریاں بٹھانے پر چالان کیا۔ تفصیلات کے مطابق ’سترہ نومبر‘ کے روز ابرار ولد نعیم سکنہ اندرون بھاٹی گیٹ کو 300 روپے جرمانہ (چالان) کیا گیا۔ جرم کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ موٹرسائیکل سوار نے9 بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی ہیں۔ ٹریفک وارڈن نے ازرائے مذاق اُس سے یہ بھی پوچھا کہ ”کیا گھر میں کوئی ایسا بچہ رہ تو نہیں گیا‘ جسے سوار کیا جا سکتا تھا؟“ ٹریفک قواعد کی رو سے ہر قسم کی گاڑی سے متعلق گنجائش کی حد مقرر ہے‘ جس سے زیادہ تعداد میں سواریاں یا وزن کو تکنیکی طور پر ’اوور لوڈنگ (over-loading)‘ کہا جاتا ہے لیکن کیا واقعی پاکستان میں ’اوورلوڈنگ جرم‘ ہے؟ موٹر سائیکل پر 9 بچوں سمیت 10 سواریاں اپنی نوعیت کی انوکھی مثال ضرور ہے لیکن ٹریفک قواعد کی کئی ایسی خلاف ورزیاں ہر دن کا نظارہ‘ یعنی اِس حد تک معمول بن چکے ہے کہ اب گردوپیش میں ہونے والی ’اوور لوڈنگ‘ دیکھنے والے تعجب کا اظہار بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ٹریفک اہلکار اِس بظاہر ’عمومی‘ لیکن انتہائی خطرناک قانون شکنی کا نوٹس لیتے ہیں! کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو¿ کو روکنے کے لئے نہ صرف سماجی سرگرمیوں بلکہ سفری سہولیات میں بھی فاصلہ رکھنے سے متعلق قواعد و ضوابط (SOPs) وضع کئے گئے‘ جن پر عمل درآمد کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے اور صرف اُن نجی گاڑیوں میں معمول سے کم افراد سوار دکھائی دیتی ہیں‘ جنہیں تنہا سفر کرنا ہوتا ہے۔ سماجی دوری کے لئے قواعد کی دھجیاں سرعام بکھیرنے والے بیک وقت ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں لیکن بہرحال پاکستان میں قوانین اور بالخصوص ٹریفک قواعد ابھی اُس بلندی تک نہیں پہنچے جہاں اِن کا کلی اطلاق ہوتا نظر آئے اور جہاں یہ قابل بھروسہ بھی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی اپنی زندگی اور اپنی گاڑی بچانے کی فکر میں رہتا ہے اور جہاں جیسا سمجھتا ہے وہاں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق قاعدے قانون (طریقہ) وضع کر لیتا ہے۔ موٹرسائیکل سوار عموماً ٹریفک قواعد کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرتے ہیں لیکن یہ بات اب انہونی نہیں رہی البتہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کسی سواری پر اُس کی مقررہ (حسب قواعد) گنجائش سے زیادہ افراد کو سوار کرنے سے متعلق اپنی نوعیت کا انوکھا جرم سامنے آنے کے بعد ذرائع اَبلاغ اور سوشل میڈیا صارفین میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ’اوورلوڈنگ سے متعلق قواعد پر سختی سے عمل درآمد کیوں نہیں کروایا جاتا؟‘ اکثریت کا خیال ہے کہ موٹرسائیکل کے علاوہ بھی دیگر کئی ایسی سواریاں ہیں‘ جن میں گنجائش سے زیادہ افراد کو سوار کیا جاتا ہے لیکن ٹریفک اہلکار ایسی گاڑیوں بالخصوص ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے خلاف کاروائی نہیں کرتے۔ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ٹریفک قواعد تو اپنی فطرت میں ایک ہیں لیکن اِن پر جزوی‘ کلی اور عبوری (امتیازی) عمل درآمد اور اطلاق دیکھنے میں آتا ہے جس سے ’مضحکہ خیز‘ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اِس کا ذکر بیرون ملک سے آنے والے اکثر کرتے ہوئے تعجب کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ٹریفک کے قوانین و قواعد تین قسم کے ہیں جو اپنی ساخت کے لحاظ سے ایک ہیں لیکن اطلاق و عمل درآمد کے لحاظ سے قطعی مختلف و الگ ہیں! توجہ طلب ہے کہ موٹروے پر ٹریفک کے قواعد پر عمل درآمد نسبتاً زیادہ نظر آتا ہے لیکن وہاں بھی اُس پبلک ٹرانسپورٹ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا جو بیک وقت دو قسم کے جرائم کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک تو کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور دوسرا نشستوں کی گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے بین الاضلاعی اور بین الاصوبائی روٹس پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں فرنٹ سیٹ پر ایک مسافر کو بٹھایا جاتا ہے لیکن اُس سے 2 سواریوں کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور یہ بے قاعدگی (جرم) اِس قدر عام ہو چکا ہے کہ پہلے اکا دکا مسافر سوال کر لیا کرتے تھے اور اب کوئی معترض بھی نہیں! کسی قوم کے ضمیر کی زندگی اور رحلت سے متعلق علم بھی اِسی ایک بات سے چلتا ہے کہ وہاں قوانین و قواعد کی دھجیاں بکھیرنے کی نشاندہی کتنے لوگ کرتے ہیں اور حکومت (سرکاری اہلکار) قواعد و قوانین کی خلاف ورزیوں کا کس قدر نوٹس لیتے ہیں! المیہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور اِس سے استفادہ کرنے والوں کو سوفیصدی نجی افراد کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور اگر کوئی مسافر بات کرنے کی جرا¿ت کر بھی لے تو اُس سے اِس قدر ہتک آمیز رویئے سے نمٹا جاتا ہے کہ دوسرے اُس کے انجام کو دیکھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی مالی و سماجی حالت عام آدمی (ہم عوام) جیسی ہوتی تو کسی نجی ٹرانسپورٹ یا دیگر شعبوں میں خدمات فراہم کرنے والے ادارے کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ عوام کا اِس طرح اور اِس قدر استحصال کرتا۔ بہرحال صورتحال یہ ہے کہ ٹریفک قواعد کے اطلاق میں موٹروے کی صورتحال ’جی ٹی روڈ‘ سے مختلف ہے جبکہ ’جی ٹی روڈ سے اندرون شہر یا دیہی علاقوں میں ٹریفک قواعد پر بتدریج سب سے کم عمل درآمد ہوتا ہے۔ اِسی طرح مال بردار گاڑیوں کی اوور لوڈنگ کے سبب سڑکیں اکھڑ جاتی ہیں کیونکہ اُن کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے لیکن اِس قسم کی سرعام ہونے والی اوورلوڈنگ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دکھائی نہیں دیتی! اوور لوڈنگ قانوناً جرم ہے (جو کہ ہے) تو اِس سے متعلق قواعد پر عمل درآمد بلاامتیاز و تفریق ہونا چاہئے کیونکہ ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر کسی قوم کی تہذیب کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔